سورة الجاثية - آیت 23

أَفَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلَٰهَهُ هَوَاهُ وَأَضَلَّهُ اللَّهُ عَلَىٰ عِلْمٍ وَخَتَمَ عَلَىٰ سَمْعِهِ وَقَلْبِهِ وَجَعَلَ عَلَىٰ بَصَرِهِ غِشَاوَةً فَمَن يَهْدِيهِ مِن بَعْدِ اللَّهِ ۚ أَفَلَا تَذَكَّرُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اے نبی بھلا آپ نے اس شخص کو دیکھا ہے جس نے اپنی نفسانی خواہش کو اپنا خدا بنارکھا ہے اور اللہ نے اپنے علم کی بناپر اسے گمراہی میں پھینک رکھا ہے اور اس کے کان پر اور اس کے دل پر مہرلگادی ہے اور اس کی آنکھ پر پردہ ڈال دیا ہے پھر اب خدا کے بعد اس گمراہ کردہ راہ کی کون راہنمائی کرسکتا ہے کیا پھر بھی تم لوگ نصیحت نہیں پکڑتے؟

تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ

(15) اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (ﷺ) کو مخاطب کر کے ان لوگوں کے حال پر اظہارت عجب کیا ہے، جن کا معبود ان کا نفس ہوتا ہے، جو اللہ کے دین کے بجائے اپنے نفس کی عبادت کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ بھی انہیں ضلالت و گمراہی میں بھٹکتا چھوڑ دیتا ہے، اس لئے کہ وہ جانتا ہے کہ ان میں قبول حق کی صلاحیت موجود نہیں ہے۔ ﴿وَأَضَلَّهُ اللَّهُ عَلَى عِلْمٍ﴾کی دوسری تفسیر یہ بیان کی گئی ہے کہ چونکہ اپنے نفس کا وہ بندہ جان رہا ہوتا ہے کہ اسے کیا کرنا چاہئے، اس کے باوجود اللہ کی طرف رجوع نہیں کرتا، اس لئے اللہ تعالیٰ اسے گمراہی میں بھٹکتا چھوڑ دیتا ہے اور اس کے کان اور دل پر مہر لگا دیتا ہے اور اس کی آنکھ پر پردہ ڈال دیتا ہے، اس لئے نہ وہ خیر کی کوئی بات سن پاتا ہے، نہ ہی خیر و شر کی تمیز کر پاتا ہے، اور نہ حق پر چلنے کی اسے توفیق ملتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جس کا حال وہ ہو جو اوپر بیان کیا گیا، یعنی جسے اللہ گمراہ کر دے، اسے ہدایت کی توفیق کون دے سکتا ہے، لوگو ! تم یہ باتیں سن کر نصیحت کیوں نہیں حاصل کرتے اور ایمان و عمل کی زندگی اختیار کر کے اپنے رب کی رضا اور جنت کے حقدار کیوں نہیں بنتے؟!