فَأَزَلَّهُمَا الشَّيْطَانُ عَنْهَا فَأَخْرَجَهُمَا مِمَّا كَانَا فِيهِ ۖ وَقُلْنَا اهْبِطُوا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ ۖ وَلَكُمْ فِي الْأَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَمَتَاعٌ إِلَىٰ حِينٍ
پھر (ایسا ہوا کہ) شیطان کی وسوہ اندازی نے ان دونوں کے قدم ڈگمگا دیے، اور یہ اسی کا نتیجہ تھا کہ جیسی کچھ (راحت و سکون کی) زندگی بسر کر رہے تھے اسے نکلنا پڑا۔ خدا کا حکم ہوا "یہاں سے نکل جاؤ۔ تم میں سے ہر وجود دوسرے کا دشمن ہے" اب تمہیں (جنت کی جگہ) زمین میں رہنا ہے اور ایک خاص وقت تک کے لیے (جو علم الٰہی میں مقرر ہوچکا ہے) اس سے فائدہ اٹھانا ہے
81: شیخ الاسلام تقی الدین ابن تیمیہ (رح) اور متأخرین کی جماعت نے کہا ہے کہ ابلیس نے آدم کے سامنے قسم کھائی اور متعدد طریقوں سے انہیں یقین دلایا کہ وہ ان کے لیے خیر خواہ ہے۔ اور آدم کو یہ گمان بھی نہیں ہوسکتا تھا کہ کوئی جھوٹی قسم کھا سکتا ہے، اس لیے دھوکے میں پڑگئے اور گمان کرلیا کہ اگر اس درخت کا پھل کھا لیں گے تو جنت سے نہ نکلیں گے، اور یہ بھی انکے دل میں بات آگئی کہ اگرچہ اس میں یہ خرابی ہے کہ اللہ کی نافرمانی ہو رہی ہے، لیکن فائدہ بہت بڑا ہے کہ ہمیشہ کے لیے جنت کے مقیم ہوجائیں گے اور بعد میں اللہ سے معذرت کرلیں گے اور توبہ کر کے اپنا گناہ معاف کروالیں گے، اسی لیے انہوں نے معصیت کا ارتکاب کرلیا، اور یہی ہر اس مؤمن کی نیت ہوتی ہے جو شیطان کے پھندے میں آکر گناہ کرتا ہے، وہ سوچتا ہے کہ ابھی یہ گناہ کرلیتا ہوں، پھر توبہ کرلوں گا اور اللہ سے معافی مانگ لوں گا۔ چنانچہ شیطان ان کے پیچھے لگا رہا انہیں طرح طرح سے بہکاتا رہا ان کے دل و دماغ میں یہ بات ڈالتا رہا کہ وہ اس ممنوع درخت کو کھالینے کے بعد ہمیشہ کے لیے جنت میں رہنے لگیں گے اور کبھی اس سے نہ نکلیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں دوسری جگہ فرمایا ہے، آیت، İوَقاسَمَهُما إِنِّي لَكُما لَمِنَ النَّاصِحِينَĬ، اور شیطان نے قسم کھائی کہ میں تم دونوں کا بہت بڑا خیر خواہ ہوں (الاعراف : 21) 82: یہ خطاب آدم، حوا اور شیطان تینوں کو ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ خطاب صرف آدم اور حوا کو ہو، کیونکہ وہ دونوں افزائش نسلِ انسانی کا ذریعہ تھے۔ حضرت ابوہریرہ (رض) کی روایت ہے، رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا کہ سب سے بہترین دن جمعہ کا دن ہے، اسی دن آدم پیدا کیے گئے اور اسی دن جنت میں داخل کیے گئے اور اسی دن وہاں سے نکالے گئے (مسلم، نسائی) 83: یعنی آدم اور ان کی اولاد، ابلیس اور اس کی اولاد کے دشمن ہوں گے، اور معلوم ہے کہ ہر شخص اپنے دشمن کو ہر ممکن طریقے سے نقصان پہنچانے کی کوشش کرتا ہے۔ کوشش کرتا ہے کہ اس کا دشمن ہر نعمت سے محروم ہوجائے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے، آیت،İ إِنَّ الشَّيْطانَ لَكُمْ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوهُ عَدُوًّا إِنَّما يَدْعُوا حِزْبَهُ لِيَكُونُوا مِنْ أَصْحابِ السَّعِيرِĬ۔ بے شک شیطان تمہارا دشمن ہے، اس لیے تم اسے دشمن سمجھتے رہو، وہ تو اپنے گروہ والوں کو بلاتا ہے، تاکہ وہ سب جہنمی ہوجائیں (فاطر : 6) اور دوسری جگہ فرمایا آیتİأَفَتَتَّخِذُونَهُ وَذُرِّيَّتَهُ أَوْلِياءَ مِنْ دُونِي وَهُمْ لَكُمْ عَدُوٌّ بِئْسَ لِلظَّالِمِينَ بَدَلاًĬ، کیا پھر بھی تم اسے اور اس کی اولاد کو مجھے چھوڑ کے اپنا دوست بنا رہے ہو، حالانکہ وہ تمہارا دشمن ہے۔ ایسے ظالموں کا برا بدلہ ہے (الکہف : 50) 84: یعنی دنیاوی زندگی ختم ہونے تک زمین پر رہو گے، پھر دار آخرت کی طرف منتقل ہوجاؤ گے جس کے لیے تم پیدا کیے گئے ہو، اور جو تمہارے لیے بنایا گیا ہے۔ اس میں اشارہ ہے اس طرف کہ دنیا کی زندگی عارضی ہے، یہاں انسان کو اس لیے بھیجا گیا ہے تاکہ آخرت کے لیے تیار ی کرے۔