وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِ الرُّسُلُ ۚ أَفَإِن مَّاتَ أَوْ قُتِلَ انقَلَبْتُمْ عَلَىٰ أَعْقَابِكُمْ ۚ وَمَن يَنقَلِبْ عَلَىٰ عَقِبَيْهِ فَلَن يَضُرَّ اللَّهَ شَيْئًا ۗ وَسَيَجْزِي اللَّهُ الشَّاكِرِينَ
اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک رسول ہی تو ہیں۔ ان سے پہلے بہت سے رسول گزر چکے ہیں، بھلا اگر ان کا انتقال ہوجائے یا انہیں قتل کردیا جائے تو کیا تم الٹے پاؤں پھر جاؤ گے؟ اور جو کوئی الٹے پاؤں پھرے گا وہ اللہ کو ہرگز کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ اور جو شکر گزار بندے ہیں اللہ ان کو ثواب دے گا۔
98۔ غزوات کے مؤرخین نے لکھا ہے کہ جب کچھ مسلمان میدان احد سے شکست کھا کر بھاگ پڑے تو عبداللہ بن قمیٔہ رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو قتل کرنے کی غرض سے آگے بڑھا، مصعب بن عمیر (رض) مسلمانوں کا جھنڈا لیے وہیں موجود تھے، انہوں نے آپ کی طرف سے دفاع کرنا چاہا تو ابن قمیٔہ نے انہیں قتل کردیا، اور اسے گمان ہوگیا کہ اس نے رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کو قتل کردیا اور کہنا شروع کردیا کہ میں نے محمد کو قتل کردیا، شیطان بھی چیخ پڑا کہ محمد کا قتل ہوگیا، جب بہت سے مسلمانون کے کانوں میں یہ آواز پڑی تو جنگ کرنا بند کردیا اور تھر اکر بیٹھ گئے، بعض نے کہا کہ کاش کوئی آدمی ہمارے لیے ابوسفیان سے امان مانگ لیتا، بعض منافقین نے کہا کہ اگر محمد نبی ہوتا تو قتل نہ ہوجاتا۔ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرما کر اس ذہنیت کی تردید کی اور کہا کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) تو ایک نبی ہیں۔ ان سے پہلے بھی اللہ کے بہت سے انبیاء و رسل گذر چکے ہیں، تو کیا اگر وہ مرجائیں گے یا قتل کردئیے جائیں گے تو تم لوگ اللہ کے دین سے پھر جاؤ گے؟ یاد رکھو کہ جو شخص دین اسلام سے صرف اس وجہ سے پھرجائے گا تو وہ صرف اپنے آپ کو نقصان پہنچائے گا، کیونکہ دین تو اللہ کا ہے اور عبادت اللہ کی کرنی ہے، وہ تو ہمیشہ سے زندہ ہے اور ہمیشہ زندہ رہے گا، کسی نبی یا رسول کی موت یا قتل سے اللہ کا دین دنیا سے اٹھ نہیں جاتا، اسی لیے انس بن مالک کے چچا انس بن النضر نے جب صحابہ کا یہ حال دیکھا تو کہا کہ اے لوگو ! اگر محمد قتل کردئیے گئے تو محمد کا رب زندہ ہے، وہ کبھی نہیں مرے گا، اور تم رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے بعد زندہ رہ کر کیا کرو گے، آؤ جس مقصد کے لیے محمد نے جنگ کی، اسی کے لیے تم بھی جنگ کرو، اور جس کی خاطر محمد نے جان دے دی، تم بھی جان دے دو، پھر کہا، اے اللہ ! یہ لوگ جو کچھ کہہ رہے ہیں اس کے لیے معافی مانگتا ہوں اور اپنی براءت کا اظہار کرتا ہوں، پھر اپنی تلوار کھینچ کر جنگ کرنی شروع کردی یہاں تک کہ قتل کردئیے گئے، (رض) (دیکھئے بخاری، کتاب الجہاد، باب : 12) امام ابن لقیم نے زاد المعاد میں لکھا ہے کہ اس آیت کریمہ کا جو مضمون ہے اور اس میں جس سزا کا ذکر ہے، اس کی حقیقت رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی وفات کے وقت کھل کر سامنے آئی کہ بہت سے منافقین اور ضعیف الایمان لوگ ایمان سے مرتد ہوگئے، اور جو مخلص لوگ اسلام پر ثابت قدم رہے اللہ نے انہیں عزت دی اور فتح و نصرت سے نوازا، انتہی۔ بخاری کی روایت ہے کہ رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی وفات کے دن ابوبکر صدیق (رض) نے اسی آیت کی تلاوت کی، اور ان کی تلاوت سن کر تمام صحابہ نے تلاوت کرنی شروع کردی اور عمر (رض) تھرا کر بیٹھ گئے، اور انہیں ایسا معلوم ہوا کہ جیسے یہ آیت آج ہی نازل ہوئی ہے