وَلَقَدْ كُنتُمْ تَمَنَّوْنَ الْمَوْتَ مِن قَبْلِ أَن تَلْقَوْهُ فَقَدْ رَأَيْتُمُوهُ وَأَنتُمْ تَنظُرُونَ
اور تم تو خود موت کا سامنا کرنے سے پہلے ( شہادت کی) موت کی تمنا کیا کرتے تھے۔ (٤٧) چنانچہ اب تم نے کھلی آنکھوں اسے دیکھ لیا ہے۔
آیت 143 میں اللہ تعالیٰ نے کلام کا رخ پھر واقعہ احد کی طرف پھیر دیا ہے، رسول اللہ (ﷺ) نے شہدائے بدر کی فضیلت بیان کی، تو جن صحابہ کرام کو اس میں شرکت کا موقع نصیب نہیں ہوا تھا، انہوں نے جہاد کی تمنا کی، تاکہ شہید ہو کر اپنے بدری بھائیوں جیسی فضیلت کے حقدار بن جائیں۔ چنانچہ غزوہ احد کے موقع سے وہ دن آہی گیا، لیکن جب حالات نے پلٹا کھایا، اور موت سامنے نظر آنے لگی تو بہت سے صحابہ کرام بھاگ کھڑے ہوئے، اسی کی طرف اس آیت میں اشارہ ہے، اور ایک قسم کا عتاب ہے کہ تم لوگ تو موت کی تمنا کر رہے تھے، اور جب اس کا منظر تمہاری آنکھوں کے سامنے آگیا تو میدان چھوڑ بیٹھے ! بخاری ومسلم نے عبداللہ بن ابی اوفی (رض) سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا : دشمن سے مڈبھیڑ کی تمنا نہ کرو، اور اللہ سے عافیت کی دعا کرتے رہو، لیکن جب دشمن کا سامنا ہوجائے تو صبر سے کام لو اور جان لو کہ جنت تلواروں کے سائے تلے ہے۔