يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا الرِّبَا أَضْعَافًا مُّضَاعَفَةً ۖ وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ
اے ایمان والو ! کئی گنا بڑھا چڑھا کر سود مت کھاؤ، اور اللہ سے ڈرو تاکہ تمہیں فلاح حاصل ہو (٤٤)
92۔ واقعہ احد کے بیان میں سود کا بیان اچانک آگیا ہے، اس کا سبب یہ معلوم ہوتا ہے کہ ابھی آیت 120 اور 125 میں یہ بتایا گیا ہے کہ فتح و نصرت کا راز صبر و تقوی میں مضمر ہے، اور تقوی ہی دنیا و آخرت کی ہر کامیابی کا ذریعہ ہے، تو طبعی طور پر ذہنوں میں تقوی کی صفات جاننے کا شوق پیدا ہوا، اس لیے اللہ تعالیٰ نے (جنگ احد کی مزید تفصیلات بیان کرنے سے پہلے) تقوی کی اہم صفات کو بیان کیا، اور یہی وجہ ہے کہ یہاں سود سے متعلق آیتوں میں تین بار لفظ (تقوی) کو دہرایا گیا ہے، گویا سود نہ لینا تقوی کی اہم صفت ہے۔ ایک دوسرا سبب یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جنگ احد میں فتح، شکست میں اس وجہ سے بدل گئی کہ تیرانداز مسلمان مال کی لالچ میں پڑگئے، اور لالچ اور دولت پرستی کی سب سے گھناؤنی صورت ” سود“ ہے، اسی لیے اللہ نے اس سے منع فرمایا، اور اپنی راہ میں خرچ کرنے والوں کی فضیلت بیان کی۔ زمانہ جاہلیت میں جب قرض کی مدت پوری ہوجاتی، تو قرض والا کہتا کہ تم میری رقم واپس کرو، یا میں مدت بڑھا دیتا ہوں اور تم رقم میں اضافہ کرو، آیت میں لفظ ”ایمان“ کے ساتھ خطاب سے اس طرف اشارہ ہے، کہ ایمان کا تقاضا سود کو چھوڑ دینا ہے۔ اور سورۃ بقرہ میں سودی کاروبار کو اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کہا گیا ہے۔ کئی گنا بنا کر سود لینے کا ذکر، زمانہ جاہلیت کی عادت بیان کرنے کے لیے کیا گیا ہے، کہ وہ لوگ ایسا کرتے تھے، ورنہ سود تو ہر حال میں حرام ہے، چاہے کم ہو یا زیادہ، اور تقوی کا تقاضا یہی ہے کہ سود نہ لیا جائے۔