أَمَّنْ هُوَ قَانِتٌ آنَاءَ اللَّيْلِ سَاجِدًا وَقَائِمًا يَحْذَرُ الْآخِرَةَ وَيَرْجُو رَحْمَةَ رَبِّهِ ۗ قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ ۗ إِنَّمَا يَتَذَكَّرُ أُولُو الْأَلْبَابِ
بھلاوہ شخص جو رات کے اوقات تنہائی وخلوت میں ہر طرف سے کٹ کر خدا کے سامنے جھک گیا کبھی جوش اضطراب کی منزلوں کے تصور سے ڈرنے لگتا ہے اور کبھی اس کی شان کریمی و رحمت کی یاد کرکے امیدو اور بخشش ہوجاتا ہے توبتلاؤ کہ ایسا شخص اور سرشار ان غفلت وحجاب برابر ہیں؟ پھر کیا صاحبان علم اور گم گشتگان جہل، دونوں کا ایک درجہ ہے اور نصیحت وہی مانتے ہیں جودانشمند ہیں (٨)۔
(8) مشرکین کی صفات بیان کرنے کے بعد اب مومنین کی صفات بیان کی گئی ہیں، کہا گیا ہے کہ وہ کافر بہتر ہے جو مصیبت ٹل جانے کے بعد غیر اللہ کو پکارنے لگتا ہے، یا وہ مومن جو خوشی اور غم دونوں حال میں راتوں کو اٹھ کر نماز پڑھتا ہے، قرآن کریم کی تلاوت کرتا ہے اور عذاب آخرت کو یاد کر کے سجدے میں اپنے رب کے سامنے گریہ وزاری کرتا ہے اور حصول جنت کی دعا کرتا ہے؟ یقیناً وہ مومن بہتر ہے جو ہر حال میں اپنے رب کو یاد کرتا رہتا ہے، خوشی ملتی ہے تو اس کا شکر ادا کرتا ہے اور غم ملتا ہے تو اسی سے اس سے نجات پانے کے لئے دعا کرتا ہے۔ آیت کے آخر میں نبی کریم (ﷺ) کی زبانی کہا گیا ہے کہ علم و جہل اور عالم و جاہل برابر نہیں ہو سکتے ہیں۔ جو لوگ اللہ کی توحید اور اس کے اوامرونواہی کا علم حاصل کرتے ہیں اور اس پر عمل پیرا ہوتے ہیں، وہ یقیناً ان نادانوں سے بہتر ہیں جو شرک وضلالت کی وادیوں میں بھٹکتے رہتے ہیں اور اس ربانی تعلیم سے وہی لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں جو اپنے جسموں میں عقل سلیم رکھتے ہیں۔