كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ ۗ وَلَوْ آمَنَ أَهْلُ الْكِتَابِ لَكَانَ خَيْرًا لَّهُم ۚ مِّنْهُمُ الْمُؤْمِنُونَ وَأَكْثَرُهُمُ الْفَاسِقُونَ
(مسلمانو) تم وہ بہترین امت ہو جو لوگوں کے فائدے کے لیے وجود میں لائی گئی ہے، تم نیکی کی تلقین کرتے ہو، برائی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔ اگر اہل کتاب ایمان لے آتے تو یہ ان کے حق میں کہیں بہتر ہوتا، ان میں سے کچھ تو مومن ہیں، مگر ان کی اکثریت نافرمان ہے۔
78۔ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے امت مسلمہ کی فضیلت دوسری امتوں پر بیان کی ہے کہ اے مسلمانو ! تم سب سے اچھے لوگ ہو، اس لیے کہ تمہیں اللہ نے اس لیے دنیا میں بھیجا ہے کہ بنی نوع انسان کو بھلائی کا حکم دو، برائی سے روکو، اور اللہ پر اور ان تمام چیزوں پر ایمان لے آؤ جن پر اللہ نے ایمان لانے کا حکم دیا ہے۔ امت مسلمہ کی یہ فضیلت دوسری تمام امتوں پر علی الاطلاق ہے۔ اور اس فضیلت میں امت مسلمہ کے ہر دور کے لوگ شریک ہیں، خود امت مسلمہ کے درمیان درجات میں تفاوت تو موجود ہے، جیسے صحابہ کرام کو دیگر مسلمانوں پر فوقیت حاصل ہے۔ لیکن مسلمان چاہے جس دور کے ہوں، انہیں غیر مسلموں پر فضیلت حاصل ہے۔ امام احمد، ترمذی اور حاکم نے معاویہ بن حیدہ (رض) سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے فرمایا۔ اے مسلمانو ! تمہارا وزن ستر امتوں کے برابر ہے، اور تم ان سے بہتر اور اللہ کے نزدیک ان سے زیادہ مکرم ہو۔ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ امت مسلمہ کو یہ مقام، ان کے نبی محمد ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی وجہ سے ملا ہے، اس لیے کہ اللہ نے انہیں مخلوق میں سب سے اشرف اور رسولوں میں سب سے اعلیٰ بنایا تھا، اور انہیں ایک ایسا عظیم اور کامل دین دے کر بھیجا تھا جو ان سے پہلے کسی نبی یا رسول کو نہیں ملا، ان کے اس دین کا پابند رہ کر تھوڑا عمل بھی دوسرے مذاہب والوں کے عمل کثیر سے زیادہ افضل ہے۔ اور یہ مقام ہر اس شخص کو ملے گا جو مذکورہ بالا صفات کے ساتھ متصف ہوگا، اور جس کے اندر یہ صفات نہیں پائی جائیں گی، وہ اہل کتاب یعنی یہودیوں کے مشابہ ہوگا، جیسا کہ آیت کے اگلے حصہ میں ان کا ذکر آیا ہے، کہ ان میں سے اکثر لوگ کفر و ضلالت اور فسق و معصیت میں مبتلا ہیں۔