فِيهِ آيَاتٌ بَيِّنَاتٌ مَّقَامُ إِبْرَاهِيمَ ۖ وَمَن دَخَلَهُ كَانَ آمِنًا ۗ وَلِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا ۚ وَمَن كَفَرَ فَإِنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ عَنِ الْعَالَمِينَ
اس میں روشن نشانیاں ہیں، مقام ابراہیم ہے، اور جو اس میں داخل ہوتا ہے امن پا جاتا ہے۔ اور لوگوں میں سے جو لوگ اس تک پہنچنے کی استطاعت رکھتے ہوں ان پر اللہ کے لیے اس گھر کا حج کرنا فرض ہے، اور اگر کوئی انکار کرے تو اللہ دنیا جہان کے تمام لوگوں سے بے نیاز ہے۔
آیت میں آیات بینات (کھلی نشانیاں) سے مراد مقامِ ابراہیم ہے، یعنی وہ پتھر جس پر پاؤں رکھ کر ابراہیم (علیہ السلام) نے کعبہ کی دیوار بنائی اور جس پر اللہ کے حکم سے ان کے دونوں قدموں کے نشان بن گئے (مزید تفصیل کے لیے دیکھئے سورۃ بقرہ آیت (125) کی تفسیر)۔ اسی طرح صفا و مروہ، زمزم کا پانی، خانہ کعبہ کا زمانہ جاہلیت سے گہوارہ امن ہونا اور دیگر تمام مشاعر حج مراد ہیں۔ صحیحین کی روایت ہے، رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے فتح مکہ کے دن فرمایا کہ اس شہر کو اللہ نے اس دن سے (بلد حرام) بنا دیا ہے، جس دن آسمان اور زمین کو پیدا کیا، اور یہ قیامت تک بلد حرام رہے گا۔ جمہور علماء نے سے حج کے وجوب پر استدلال کیا ہے۔ حج سن بلوغ کو پہنچ جانے کے بعد زندگی میں صرف ایک بار فرض ہے، جیسا کہ ابوہریرہ (رض) کی حدیث سے ثابت ہے، جسے امام احمد اور مسلم نے روایت کی ہے، کہ اللہ کے رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے خطبہ دیا اور فرمایا کہ اللہ نے تمہارے اوپر حج فرض کیا ہے، اس لیے تم لوگ حج کرو۔ اور حج صاحب استطاعت پر فرض ہے۔ حاکم نے انس بن مالک (رض) سے روایت کی ہے، رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) سے پوچھا گیا کہ اس آیت کریمہ میں (سبیل) سے کیا مراد ہےِ، تو آپ نے فرمایا : راستے کا خرچ اور سواری، حاکم کہتے ہیں کہ یہ حدیث امام مسلم کی شرط کے مطابق صحیح ہے۔ میں کفر سے مراد یا تو فریضہ حج کا انکار ہے، یا اس کی عدم ادائیگی، ترمذی نے حضرت علی (رض) سے روایت کی ہے کہ جو شخص سفر کا خرچ اور سواری ہونے کے باوجود حج نہیں کرے گا، تو وہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی یہودی یا نصرانی ہو کر مرے، اگرچہ اس حدیث کی سند ضعیف ہے، لیکن قرآن کریم کی اس آیت اور دیگر احادیث سے اس کی تائید ہوتی ہے۔