إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِي بِبَكَّةَ مُبَارَكًا وَهُدًى لِّلْعَالَمِينَ
حقیقت یہ ہے کہ سب سے پہلا گھر جو لوگوں (کی عبادت) کے لیے بنایا گیا یقینی طور پر وہ ہے جو مکہ میں واقع ہے (اور) بنانے کے وقت ہی سے برکتوں والا اور دنیا جہان کے لوگوں کے لیے ہدایت کا سامان ہے۔ (٣٤)
69۔ یہود کے ایک نئے جدال کی تردید ہے۔ انہوں نے کہا کہ بیت المقدس لوگوں کا پہلا قبلہ ہے۔ اور خانہ کعبہ سے افضل ہے، اس لیے کہ وہ ارض مقدس میں واقع ہے، اور بہت سے انبیاء کرام ہجرت کر کے یہاں آتے رہے ہیں، پھر محمد نے اسے چھوڑ کر کعبہ کو قبلہ کیسے بنا لیا؟ تو اللہ تعالیٰ نے ان کی تردید کی، اور کہا کہ سرزمین پر اللہ کا پہلا گھر خانہ کعبہ ہے، اور جب تک دنیا رہے گی، وہ گھر متبرک اور انسان کی ہدایت کا ذریعہ رہے گا، لوگ دنیا کے چپے چپے سے کھچ کر یہاں حج و زیارت کے لیے آتے رہیں گے، اور جب تک دنیا رہے گی اس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے رہیں گے اور اللہ کو یاد کرتے رہیں گے۔ صحیحین میں ابو ذر (رض) کی روایت ہے، میں نے پوچھا اے اللہ کے رسول ! روئے زمین پر کون سی مسجد پہلے بنائی گئی ؟ تو آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے فرمایا : مسجد حرام، میں نے پوچھا، پھر کون؟ تو آپ نے مسجد اقصی، میں نے پوچھا : دونوں کے درمیان کتنی مدت کا فاصلہ تھا؟ آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے کہا چالیس سال، علامہ ابن القیم رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) نے خانہ کعبہ کو بنایا، اس کے چالیس سال کے بعد یعقوب بن اسحاق علیہما السلام نے مسجد اقصی کو بنایا۔