وَإِذْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثَاقَ النَّبِيِّينَ لَمَا آتَيْتُكُم مِّن كِتَابٍ وَحِكْمَةٍ ثُمَّ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهِ وَلَتَنصُرُنَّهُ ۚ قَالَ أَأَقْرَرْتُمْ وَأَخَذْتُمْ عَلَىٰ ذَٰلِكُمْ إِصْرِي ۖ قَالُوا أَقْرَرْنَا ۚ قَالَ فَاشْهَدُوا وَأَنَا مَعَكُم مِّنَ الشَّاهِدِينَ
اور (ان کو وہ وقت یاد دلاؤ) جب اللہ نے پیغمبروں سے عہد لیا تھا کہ : اگر میں تم کو کتاب اور حکمت عطا کروں، پھر تمہارے پاس کوئی رسول آئے جو اس (کتاب) کی تصدیق کرے جو تمہارے پاس ہے، تو تم اس پر ضرور ایمان لاؤ گے، اور ضرور اس کی مدد کرو گے۔ اللہ نے ( ان پیغمبروں سے) کہا تھا کہ : کیا تم اس بات کا اقرار کرتے ہو اور میری طرف سے دی ہوئی یہ ذمہ داری اٹھاتے ہو؟ انہوں نے کہا تھا : ہم اقرار کرتے ہیں۔ اللہ نے کہا : تو پھر ( ایک دوسرے کے اقرار کے) گواہ بن جاؤ، اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہی میں شامل ہوں۔
61۔ اس آیت میں بھی نجران کے نصاری کی تردید ہے، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) سے لے کر عیسیٰ (علیہ السلام) تک ہر نبی سے یہ عہد و پیمان لیا کہ جب بھی کو نیا رسول آئے گا جو گذشتہ انبیاء کی تصدیق کر رہا ہوگا، تو گذشتہ نبی اور اس کے پیروکاروں پر لازم ہوگا کہ اس پر ایمان لے آئیں، اور اسکی مدد کریں۔ چنانچہ تمام انبیاء نے اس کا اقرار کیا، اور اس اقرار کے گواہ بنے، اور اللہ نے بھی شہادت دی، اس عمومی اقرار و عہدنامے کا تقاضا یہ تھا کہ جب محمد (ﷺ) دنیا میں تشریف لائیں گے تو وہ تمام لوگ جو موسیٰ اور عیسیٰ علیہما السلام کے پیروکار ہوں گے، ان پر ایمان لے آئیں گے، اس لیے اب اگر کوئی شخص محمد (ﷺ) کی اتباع نہیں کرتا تو وہ فاسق، اللہ کا نافرمان اور اس نبی کو جھٹلانے والا ہوگا جس کی محبت کا دم بھر رہا ہے اور جس پر ایمان لانے کا دعوی کر رہا ہے، اور اگر نجران کے نصاری بھی عیسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان کا دعوی کرتے ہیں، اور محمد (ﷺ) پر ایمان نہیں لاتے، تو وہ اپنے دعوی میں کاذب ہیں۔ علی بن ابی طالب اور ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ اللہ نے جب بھی کسی نبی کو مبعوث کیا، تو اس سے یہ عہد لیا کہ اگر اللہ نے اس کی زندگی میں محمد (ﷺ) کو مبعوث کیا تو وہ محمد پر ایمان لائے گا اور اس کی مدد کرے گا، ہر نبی کو یہ بھی حکم دیا کہ وہ اپنی امت سے اس بات کا عہد لے گا کہ اگر محمد مبعوث ہوئے اور وہ لوگ زندہ رہے، تو ان پر ایمان لائیں گے اور ان کی مدد کریں گے۔ حضرت علی (رض) کے اسی اثر کے پیش نظر بعض علماء نے کہا ہے کہ آیت کریمہ میں مذکور عہد نبی کریم (ﷺ) کے ساتھ خاص ہے، جیسا کہ قاضی عیاض نے اپنی کتاب الشفاء میں بیان کیا ہے۔