سورة آل عمران - آیت 79

مَا كَانَ لِبَشَرٍ أَن يُؤْتِيَهُ اللَّهُ الْكِتَابَ وَالْحُكْمَ وَالنُّبُوَّةَ ثُمَّ يَقُولَ لِلنَّاسِ كُونُوا عِبَادًا لِّي مِن دُونِ اللَّهِ وَلَٰكِن كُونُوا رَبَّانِيِّينَ بِمَا كُنتُمْ تُعَلِّمُونَ الْكِتَابَ وَبِمَا كُنتُمْ تَدْرُسُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

یہ کسی بشر کا کام نہیں کہ اللہ تو اسے کتاب اور حکمت اور نبوت عطا کرے، اور وہ اس کے باوجود لوگوں سے کہے کہ اللہ کو چھوڑ کر میرے بندے بن جاؤ۔ (٢٩) اس کے بجائے ( وہ تو یہی کہے گا کہ) اللہ والے بن جاؤ، کیونکہ تم جو کتاب پڑھاتے رہے ہو اور جو کچھ پڑھتے رہے ہو، اس کا یہی نتیجہ ہونا چاہئے۔

تفسیرتیسیرارحمٰن - محمد لقمان سلفی

60۔ اس آیت کریمہ میں نصاری کی بالعموم اور نجران کے نصرانیوں کی بالخصوص تردید ہے، جو عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں افترا پردازی کرتے تھے اور کہتے تھے کہ انہوں نے ہی اپنے پیروکاروں کو اپنی عبادت کا حکم دیا تھا اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جس انسان کو اللہ تعالیٰ نے وحی، آسمانی کتاب اور نبوت جیسی نعمتوں سے نوازا ہو، اور علم شریعت کا فہم بھی عطا کیا ہو، اس کے لیے عقلی طور پر ممنوع اور مستحیل ہے کہ وہ لوگوں کو اپنی عبادت، یا انبیاء یا فرشتوں کی عبادت کی طرف بلائے، اس لیے کہ یہ کفر صریح ہے، وہ تو اللہ کی طرف سے دین خالص لے کر اس لیے مبعوث ہوا تھا کہ لوگوں کو کفر کی راہ سے روکے۔ اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ (علیہ السلام) کا تزکیہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ تو لوگوں سے یہ کہتے تھے کہ تم لوگ علم دین سے بہرہ ور اور اللہ والے بن جاؤ۔ آیت کریمہ میں ” بشر“ کا لفظ اشارہ کرتا ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) ایک انسان تھے، جنہیں اللہ نے رتبہ نبوت سے نوازا تھا، وہ معبود کیسے ہوسکتے تھے؟ ابن اسحاق، ابن جریر، ابن المنذر، ابن ابی حاتم نے اور بیہقی نے دلائل النبوۃ میں ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ علمائے یہود اور نجران کے نصاری رسول اللہ (ﷺ) کے پاس جمع ہوئے، اور آپ نے انہیں اسلام کی دعوت دی، تو ابو رافع قرظی نے کہا : اے محمد ! کیا تم چاہتے ہو کہ ہم تمہاری عبادت کریں، جس طرح نصاری عیسیٰ کی عبادت کرتے ہیں؟ تو ایک نصرانی نے بھی کہا کہ اے محمد ! کیا تم واقعی ہم سے یہی چاہتے ہو؟ تو رسول اللہ (ﷺ) نے کہا کہ غیر اللہ کی عبادت کرنے یا اس کا حکم دینے سے ہم اللہ کی پناہ مانگتے ہیں۔ اللہ نے مجھے اس لیے نہیں بھیجا ہے، اور نہ ہی اس کا حکم دیا ہے۔ تو اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ آیت کریمہ اس بات پر بھی دلالت کرتی ہے کہ حصول علم اور تعلیم کا تقاضا یہ ہے کہ انسان ربانی بن جائے۔ اگر حصول علم سے کسی کی نیت تعلق باللہ نہیں تو اس نے عمر ضائع کی اور نقصان و خسارہ اس کا نصیب ہوا۔ اسی لیے نبی کریم (ﷺ) نے فرمایا کہ ہم اللہ کے ذریعہ پناہ مانگتے ہیں ایسے علم سے جو نفع نہ پہنچائے اور ایسے دل سے جو اللہ کے لیے نہ جھکے (مسلم) آیت سے یہ بھی مستفاد ہے کہ جو علماء و مشائخ قرآن و سنت سے ہٹ کر اپنی مرضی سے اپنے پیروکاروں کے لیے حلال و حرام کرنے کی دکان سجاتے ہیں، وہ اپنی عبادت کرواتے ہیں، مسند احمد اور ترمذی میں ہے کہ عدی بن حاتم (رض) نے کہا کہ اے اللہ کے رسول ! نصرانیوں نے اپنے علماء کی عبادت تو نہیں کی؟ تو آپ نے فرمایا کہ ہاں، ان علماء نے اپنی مرضی سے ان کے لیے حرام کو حلال اور حلال کو حرام بنا دیا، تو انہوں نے ان کی اتباع کی، یہی ان کی عبادت تھی۔