وَمِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ مَنْ إِن تَأْمَنْهُ بِقِنطَارٍ يُؤَدِّهِ إِلَيْكَ وَمِنْهُم مَّنْ إِن تَأْمَنْهُ بِدِينَارٍ لَّا يُؤَدِّهِ إِلَيْكَ إِلَّا مَا دُمْتَ عَلَيْهِ قَائِمًا ۗ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُوا لَيْسَ عَلَيْنَا فِي الْأُمِّيِّينَ سَبِيلٌ وَيَقُولُونَ عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ وَهُمْ يَعْلَمُونَ
اہل کتاب میں کچھ لوگ تو ایسے ہیں کہ اگر تم ان کے پاس دولت کا ایک ڈھیر بھی امانت کے طور پر رکھوا دو تو وہ تمہیں واپس کردیں گے، اور انہی میں سے کچھ ایسے ہیں کہ اگر ایک دینار کی امانت بھی ان کے پاس رکھواؤ تو وہ تمہیں واپس نہیں دیں گے، الا یہ کہ تم ان کے سر پر کھڑے رہو۔ ان کا یہ طرز عمل اس لیے ہے کہ انہوں نے یہ کہہ رکھا ہے کہ : امیوں ( یعنی غیر یہودی عربوں) کے ساتھ معاملہ کرنے میں ہماری کوئی پکڑ ہیں ہوگی۔ اور (اس طرح) وہ اللہ پر جان بوجھ کر جھوٹ باندھتے ہیں۔
57۔ گذشتہ آیتوں میں یہودیوں کی دینی خیانت کا ذکر تھا، اب ان کی مالی خیانت کا ذکر ہورہا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ ان میں سے بعض ایسے ہوتے ہیں جن پر مال کثیر کے سلسلہ میں بھروسہ کیا جاسکتا ہے، اور بعض ایسے ہوتے ہیں کہ جن پر ایک دینار کے لیے بھی بھروسہ نہیں کیا جاسکتا۔ عدی بن حاتم کا قول ہے کہ آیت میں امانت دار اہل کتاب سے مراد نصاری اور خیانت کرنے والوں سے مراد یہود ہیں، یہ خائن یہود لوگوں کو باور کراتے تھے کہ امیین یعنی عربوں کا مال کسی طرح بھی لینا جائز ہے، کیونکہ یہ لوگ مشرک ہیں، حالانکہ یہ سراسر جھوٹ اور اللہ پر بہتان تھا۔ اللہ نے کبھی بھی کسی کا مال دوسرے کے لیے غیر شرعی طور پر لینا جائز نہیں قرار دیا، اللہ کے رسول (ﷺ) نے فرمایا کہ جس نے کوئی مال حاصل کرنے کے لیے جھوٹی قسم کھائی، وہ اللہ سے اس حال میں ملے گا کہ اللہ اس پر ناراض ہوگا (، مسند احمد)