سورة البقرة - آیت 29

هُوَ الَّذِي خَلَقَ لَكُم مَّا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا ثُمَّ اسْتَوَىٰ إِلَى السَّمَاءِ فَسَوَّاهُنَّ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ ۚ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

(اور دیکھو) یہ اسی (پروردگار) کی کارفرمائی ہے کہ اس نے زمین کی ساری چیزیں تمہارے لیے پیدا کیں (تاکہ جس طرح چاہو ان سے کام لو) پھر وہ آسمان کی طرف متوجہ ہوا اور سات آسمان درست کردیے (جن سے طرح طرح کے فوائد تمہیں حاصل ہوتے ہیں) اور وہ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے

تفسیرتیسیرارحمٰن - محمد لقمان سلفی

اللہ تعالیٰ نے زندگی اور موت پر اپنی قدرت کاملہ کا ذکر کر کے بعث بعد الموت پر دلیل پیش کیا، پھر اچھوتے انداز میں کائنات کی تخلیق کا ذکر کیا اور کہا کہ اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں کیونکہ اللہ تو ہر چیز کو جاننے والا ہے، اس لیے وہ ہر چیز کو احسن طریق پر پیدا کرنے پر قادر ہے، اس نے آدم کو پیدا کیا اور اس علم سے نوازا جس سے اس کی فضیلت ظاہر ہوئی۔ یہ آیت دلیل ہے اس بات کی کہ اللہ تعالیٰ نے جتنی چیزیں پیدا کی ہیں ان کے بارے میں اصل حکم اباحت و طہارت ہے۔ یہاں تک کہ کسی چیز کی حرمت یا ناپاکی کے بارے میں کوئی صریح دلیل نہ آجائے۔ قرآن کریم میں (استوی) تین معنوں میں استعمال ہوا ہے : اگر کسی حرف سے متعدی نہیں ہے تو کمال و تمام کے معنی میں ہوگا، جیسا کہ اللہ نے موسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں فرمایا۔İ وَلَمَّا بَلَغَ أَشُدَّهُ وَاسْتَوىĬ ۔ اور اگر حرف علی کے ذریعہ متعدی ہے تو علا اور ارتفع کے معنی میں ہوگا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: İالرَّحْمنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوىĬ ۔ اور اگر الی کے ذریعہ متعدی ہے تو (قصد) کے معنی میں ہوگا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں فرمایا ہے۔ İثُمَّ اِسْتَوى إِلَى السَّماءِĬ ۔ یعنی اللہ نے آسمان کی طرف قصد کیا، اور اسے سات آسمان بنایا اور مضبوط و مستحکم کیا، اور وہ آسمان و زمین کے درمیان کی ہر چیز کو جانتا ہے، ہر ظاہر و باطن کا علم رکھتا ہے۔ اس آیت میں دلیل ہے اس بات کی کہ اللہ نے زمین کو آسمان سے پہلے پیدا کیا اور سورۃ نازعات کی آیت İوَالْأَرْضَ بَعْدَ ذَلِكَ دَحَاهَا Ĭ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اللہ نے پہلے زمین کو پیدا کیا پھر آسمان کو پیدا کیا۔ پھر زمین کو پھیلایا اور اس میں درخت اور گھاس وغیرہ اگائے۔