فَمَنْ حَاجَّكَ فِيهِ مِن بَعْدِ مَا جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَكُمْ وَأَنفُسَنَا وَأَنفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَل لَّعْنَتَ اللَّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ
تمہارے پاس ( حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے واقعے کا) جو صحیح علم آگیا ہے اس کے بعد بھی جو لوگ اس معاملے میں تم سے بحث کریں تو ان سے کہہ دو کہ :“ آؤ ہم اپنے بیٹوں کو بلائیں اور تم اپنے بیٹوں کو، اور ہم اپنی عورتوں کو اور تم اپنی عورتوں کو، اور ہم اپنے لوگوں کو اور تم اپنے لوگوں کو، پھر ہم سب ملکر اللہ کے سامنے گڑ گڑائیں، اور جو جھوٹے ہوں ان پر اللہ کی لعنت بھیجیں۔ (٢٥)
50۔ اسے آیت مباہلہ کہتے ہیں۔ اس کا پس منظر یہ ہے کہ صلح حدیبیہ کے بعد نجران کے نصاری کا ایک وفد نبی کریم (ﷺ) کے پاس آیا، اور عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں آپ سے مناظرہ کیا۔ وہ عیسیٰ کو اللہ کا بیٹا قرار دیتے تھے، اور نبی کریم (ﷺ) نے دلائل کے ذریعہ ثابت کیا کہ وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول تھے۔ جب باطل پر ان کا اصرار حد سے آگے بڑھ گیا، تو اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ (ﷺ) کو ان کے ساتھ مباہلہ کا حکم دیا۔ امام بخاری نے حذیفہ (رض) سے روایت کی ہے کہ نجران کے نصرانیوں کے دو سردار رسول اللہ (ﷺ) کے پاس مباہلہ کے لیے آئے۔ حالات کا جائزہ لینے کے بعد ایک نے اپنے ساتھی سے کہا کہ ایسا نہ کرو، اللہ کی قسم، اگر یہ نبی ہے اور ہم نے مباہلہ کیا تو ہم اور ہمارے بعد ہماری نسل کبھی بھی فلاح نہ پائے گی۔ چنانچہ وہ لوگ رسول اللہ کو جزیہ دینے پر راضی ہوگئے۔ امام احمد نے ابن عباس (رض) کا قول نقل کیا ہے کہ اگر رسول اللہ (ﷺ) کے ساتھ مباہلہ کی نیت کرنے والے ایسا کر گذرتے تو لوٹنے کے بعد نہ انہیں اپنا مال ملتا اور نہ اہل وعیال ابن عباس (رض) کا یہ قول ترمذی اور نسائی میں بھی موجود ہے۔ ایک اور روایت میں ہے کہ دونوں سردارانِ نجران کے ساتھ کیے گئے وعدہ کے مطابق رسول اللہ (ﷺ) صبح کے وقت علی، فاطمہ اور حسن و حسین کے ساتھ باہر نکلے اور ان دونوں کو بلا بھیجا، تو انہوں نے انکار کردیا اور جزیہ دینے پر تیار ہوگئے۔