سورة لقمان - آیت 27

وَلَوْ أَنَّمَا فِي الْأَرْضِ مِن شَجَرَةٍ أَقْلَامٌ وَالْبَحْرُ يَمُدُّهُ مِن بَعْدِهِ سَبْعَةُ أَبْحُرٍ مَّا نَفِدَتْ كَلِمَاتُ اللَّهِ ۗ إِنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

یہ زمین پر (لاکھوں کروڑوں) درخت (جو تم دیکھ رہے ہو) اگر ان سب (کی شاخوں) کو قلم بنادیا جائے اور (تمام بے کنار اور بے کراں) سمندروں سے سیاہی کا کام لیاجائے اور وہ بھی اس طرح کہ جب سمندر ختم ہوجائیں اور ویسے ہی سات نئے عظیم الشان سمندر ان کی جگہ آموجود ہوں اور اس طریقے سے اللہ تعالیٰ کے کلمات آیات کولکھاجائے پھر بھی یقین کرو کہ وہ کبھی تمام نہ ہوں گے کیونکہ وہ عزیزوحکیم ہے

تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ

(20) محمد بن اسحاق نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے، علمائے یہود نے رسول اللہ (ﷺ) سے مدینہ میں پوچھا کہ اے محمد ! تمہارا یہ قول : ﴿وَمَا أُوتِيتُمْ مِنَ الْعِلْمِ إِلَّا قَلِيلًا﴾ ” تمہیں بہت تھوڑا علم دیا گیا ہے“ ہمارے بارے میں ہے یا تمہاری قوم کے بارے میں؟ تو آپ نے کہا : دونوں کے بارے میں تو انہوں نے کہا کیا تم اپنے قرآن میں نہیں پڑھتے ہو کہ ہمیں تو رات دی گئی ہے جس میں ہر چیز بیان کردی گئی ہے؟ تو آپ نے فرمایا کہ یہ اللہ کے علم کا تھوڑا حصہ ہے اس کے بعد یہ آیت کریمہ نازل ہوئی (حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں، آیت کا شان نزول دلیل ہے کہ یہ مدینہ میں نازل ہوئی تھی) جس میں نبی کریم (ﷺ) کے جواب کی تائید تھی کہ اگر زمین کے سارے درخت کاٹ کر قلم بنائے جائیں اور بحر محیط اور اس جیسے دوسرے سات سمندروں کا پانی بطور روشنائی استعمال کیا جائے اور اللہ کا کلام لکھا جائے تو سارے درخت اور سارے سمندروں کا پانی ختم ہوجائے اور اللہ کا کلام ختم نہ ہو۔