أَوَلَمْ يَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَيَنظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ ۚ كَانُوا أَشَدَّ مِنْهُمْ قُوَّةً وَأَثَارُوا الْأَرْضَ وَعَمَرُوهَا أَكْثَرَ مِمَّا عَمَرُوهَا وَجَاءَتْهُمْ رُسُلُهُم بِالْبَيِّنَاتِ ۖ فَمَا كَانَ اللَّهُ لِيَظْلِمَهُمْ وَلَٰكِن كَانُوا أَنفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ
کیا یہ لوگ زمین میں چلتے پھرتے نہیں ؟ (یعنی اگر پھرتے) تو دیکھتے کہ وہ قومین جو ان سے پہلے گزری ہیں ان کا انجام کیا ہوا وہ قومیں تھیں جو ان سے تمدن وترقیات اور قوائے جسمانی سے بڑھ کر قوی تھیں انہوں نے زمین پر اپنے کاموں کے آثار چھوڑے اور جس قدر تم نے اسے متمدن بنایا ہے اس سے کہیں زیادہ انہوں نے تمدن پھیلایا ہے لیکن جب ہمارے رسول ان میں بھیجے گئے اور ہماری نشانیاں انہیں دکھائی گئیں تو انہوں نے سرکشی اور بغاوت سے انہیں جھٹلادیا اور برباد فنا ہوگئے خدا ظلم کرنے والا نہیں تھا لیکن انہوں نے خود اپنے اوپر ظلم کیا (٢)
(4) انہی بعث بعد الموت کے منکرین سے کہا جا رہا ہے کہ وہ ان گزشتہ قوموں کے علاقوں میں جا کر عبرت کیوں نہیں حاصل کرتے جنہیں اللہ نے ان کے کفر و سرکشی اور انکار آخرت کی وجہ سے ہلاک کردیا تھا وہ لوگ بڑے طاقتور تھے، انہوں نے زمین کو ادھیڑ کر اسے خوب فائدہ اٹھایا تھا اس میں کاشت کی، اس سے قسم قسم کے معادن نکالے، بڑی بڑی عمارتیں بنائیں، مختلف قسم کی چیزیں ایجاد کیں اور دنیاوی زندگی سے خوب مستفید ہوئے، یہاں تک کہ اپنی شہوتوں کے غلام بن گئے، اپنے خالق کو یکسر بھول گئے اور آخرت ان کی آنکھوں سے اوجھل ہوگئی تو اللہ تعالیٰ نے ان کے حال پر رحم کرتے ہوئے ان کی ہدایت کے لئے رسولوں کو معجزات اور کھلی نشانیاں دے کر بھیجا، لیکن انہوں نے ان کی تکذیب کردی اور اپنے کفر و سرکشی پر جمے رہے، تو اللہ تعالیٰ نے انہیں ہلاک کردیا اور ان کا یہ انجام بد ان کے برے اعمال کا نتیجہ تھا، انہوں نے خود اپنے آپ پر ظلم کیا تھا اللہ نے ان پر ظلم نہیں کیا تھا ۔