سورة آل عمران - آیت 45

إِذْ قَالَتِ الْمَلَائِكَةُ يَا مَرْيَمُ إِنَّ اللَّهَ يُبَشِّرُكِ بِكَلِمَةٍ مِّنْهُ اسْمُهُ الْمَسِيحُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ وَجِيهًا فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَمِنَ الْمُقَرَّبِينَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

( وہ وقت بھی یاد کرو) جب فرشتوں نے مریم سے کہا تھا کہ : اے مریم ! اللہ تعالیٰ تمہیں اپنے ایک کلمے کی ( پیدائش) کی خوشخبری دیتا ہے جس کا نام مسیح عیسیٰ ابن مریم ہوگا، ( ١٨) جو دنیا اور آخرت دونوں میں صاحب وجاہت ہوگا، اور ( اللہ کے) مقرب بندوں میں سے ہوگا۔

تفسیرتیسیرارحمٰن - محمد لقمان سلفی

39۔ یہاں سے عیسیٰ (علیہ السلام) کا قصہ شروع ہورہا ہے، اور مریم علیہا السلام کو بشارت دی جا رہی ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں ایک عظیم المرتبت لڑکا عطا فرمائے گا۔ فرشتوں نے کہا کہ اے مریم اللہ تمہیں ایک لڑکے کی بشارت دیتا ہے، جو اس کے ایک کلمہ کے ذریعہ بغیر باپ کے وجود میں آئے گا، جس کا لقب مسیح اور نام عیسیٰ ہوگا۔ بقاعی نے مسیح لقب سے متعلق لکھا ہے۔ اس وقت کی شریعت میں تھا کہ امام وقت جس کے بدن میں مقدس تیل لگا دیتا تھا وہ طاہر ہوجاتا تھا اور صاحب برکت بن کر حکومت، علم اور دیگر بڑی ذمہ داریاں اٹھانے کا اہل بن جاتا تھا۔ اللہ نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو مسیح کا لقب دے کر اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ وہ اللہ کی جانب سے ان تمام خوبیوں کے پیدائشی مالک ہیں۔ دوسرا قول یہ ہے کہ جب وہ کسی مریض پر ہاتھ پھیر دیتے تو وہ شفا یاب ہوجاتا تھا۔ اسی لیے انہیں مسیح کہا گیا، ابن مریم میں اس طرف اشارہ ہے کہ وہ بغیر باپ کے پیدا ہوں گے، اس لیے ان کی نسبت ان کی ماں کی طرف ہوگی، اور تمام دنیا کی عورتوں پر مریم کی فضیلت کا یہی سبب تھا۔