وَمِنَ النَّاسِ مَن يَقُولُ آمَنَّا بِاللَّهِ فَإِذَا أُوذِيَ فِي اللَّهِ جَعَلَ فِتْنَةَ النَّاسِ كَعَذَابِ اللَّهِ وَلَئِن جَاءَ نَصْرٌ مِّن رَّبِّكَ لَيَقُولُنَّ إِنَّا كُنَّا مَعَكُمْ ۚ أَوَلَيْسَ اللَّهُ بِأَعْلَمَ بِمَا فِي صُدُورِ الْعَالَمِينَ
اور لوگوں میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں ہم اللہ پر ایمان لائے، مگر جب اللہ کی راہ میں انہیں کوئی اذیت پہنچتی ہے تو وہ لوگوں کی ایذارسانی کو اللہ کا عذاب سمجھ لیتا ہے اور اگر آپ کے رب کی جانب سے کوئی مدد پہنچتی ہے تو یہی لوگ کہنے لگتے ہیں کہ ہم تو تمہارے ساتھ رہے ہیں (کیا وہ یہ کہہ رہے ہیں) کیا اللہ تعالیٰ ان چھپے ہوئے بھیدوں سے واقف نہیں جودنیا کے سینوں میں مدفون ہیں؟۔
(7) مفسرین نے ضحاک کا قول نقل کیا ہے کہ یہ آیت کریمہ مکہ مکرمہ میں ان لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی تھی جو دل سے مسلمان نہیں ہوئے تھے جب انہیں مشرکین کی جانب سے تکلیف پہنچی تو دوبارہ مشرک ہوگئے اللہ نے فرمایا کہ کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کے دلوں میں اسلام گھر نہیں کیے ہوتا اس لیے جب انہیں اللہ کی راہ میں تکلیف پہنچتی ہے تو دین سے برگشتہ ہوجاتے ہیں اور انسان کی طرف انہیں جو تکلیف پہنچتی ہے اسے جہنم کے عذاب جیسا سمجھ لیتے ہیں اور جب مسلمانوں کو اللہ کی جانب سے تائید ونصرت حاصل ہوتی ہے تو ان کے پاس جاکر کہتے ہیں کہ ہم بھی تمہارے ہی جیسے مسلمان ہیں لیکن کافروں کے ساتھ رہنے پر یا اظہار کفر پر ہم اپنی جان اور اوالد کی جان بچانے کے لیے مجبور تھے۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ یہ بات ان لوگوں کے بارے میں کہی گئی جو غزوہ بدر کے موقع پر کفار مکہ کے ساتھ گئے تھے لیکن جب کافروں کو شکست فاش ہوئی اور گاجر اور مولی کی طرح کاٹے گئے اور جو باقی رہے گرفتار کرلیے گئے تو ان منافقین مکہ نے مسلمانوں سے کہا کہ دراصل ہم بھی مسلمان ہیں لیکن اپنا ایمان چھپانے پر مجبور تھے، اللہ نے ان کے دعوی کی تردید کی اور کہا کہ انسانوں کے دلوں میں جو کچھ پوشیدہ ہوتا ہے اور وہ اس سے خوب واقف ہے اس لیے تمہارا عذر کاذب اب تمہارے کام نہیں آئے گا،