وَوَصَّيْنَا الْإِنسَانَ بِوَالِدَيْهِ حُسْنًا ۖ وَإِن جَاهَدَاكَ لِتُشْرِكَ بِي مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَا ۚ إِلَيَّ مَرْجِعُكُمْ فَأُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ
اور ہم نے انسان کو بتاکید حکم دیا کہ اپنے والدین کے ساتھ نیک سلوککرے لیکن وہ اگر تجھ پر زور ڈالیں کہ تو میرے ساتھ ایسی چیز کو شریک ٹھہرائے جس کے شریک ہونے کا تجھے کچھ بھی علم نہیں ہے تو ان کی اطاعت نہ کر تم سب کو میری طرف لوٹ کرآنا ہے پھر میں تمہیں ان کاموں کی حقیقت سے آگاہ کروں گا جو تم کیا کرتے تھے (٢)۔
(5) امام احمد، مسلم، ابوداؤد، نسائی اور ترمذی وغیرہم نے روایت کیا ہے کہ یہ آیت سعد بن ابی وقاص زہری کے بارے میں نازل ہوئی تھی وہ نوجوان صحابہ کرام میں سے تھے جنہوں نے ابتدائے شباب میں ہی اسلام قبول کرلیا تھا اس وقت ان کی عمر سترہ یا اٹھارہ سال تھی جب ان کی ماں حمنہ بنت سفیان بن امیہ کو معلوم ہوا تو انہوں نے قسم کھالی جب تک وہ اسلام سے پھر نہیں جائیں گے وہ کھانا نہیں کھائیں گی، سعد نے جب ان کی یہ حالت دیکھی تو کہا کہ اگر آپ کے پاس سوروحیں ہوتیں اور ایک ایک کرکے سب نکل جائیں تو بھی میں اپنا دین نہیں چھوڑتا آپ چاہے کھائیے یانہ کھائیے ان کی ماں یہ بات سن کرکفر کی طرف ان کے لوٹنے سے ناامید ہوگئیں بالآخر اسلام لے آئیں اور کھانے پینے لگیں۔ اللہ تعالیٰ نے اسی واقعہ کی مناسبت سے یہاں فرمایا ہے ہم نے انسان کو اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک کی سخت تاکید کی ہے اس کے باوجود اگر دونوں اسے اللہ کے ساتھ شرک کرنے پر مجبور کریں، تو ان کی بات نہیں مانی جائے گی جیسا کہ سعد بن ابی وقاص نے نہیں مانی تھی آیت کے آخر میں اللہ نے فرمایا کہ سب کواسی کے پاس لوٹ کرجانا ہے اور وہ سب کا حساب لے گا اور ان کے اعمال کا بدلہ دے گا اس لیے اس کی اطاعت والدین کی اطاعت پر مقدم ہے۔