بَلِ ادَّارَكَ عِلْمُهُمْ فِي الْآخِرَةِ ۚ بَلْ هُمْ فِي شَكٍّ مِّنْهَا ۖ بَلْ هُم مِّنْهَا عَمُونَ
حقیقت یہ ہے کہ آخرت کے بارے میں ان کا علم گڈمڈ ہوگیا ہے بلکہ وہ آخرت کے متعلق شک میں پڑے ہوئے ہیں بلکہ وہ اس سے اندھے ہیں
(٢٣) حافظ ابن کثیر نے ﴿بَلِ ادَّارَكَ عِلْمُهُمْ فِي الْآخِرَةِ﴾ کا معنی یہ کیا ہے کہ لوگوں کا علم قیامت کا وقت جاننے سے عاجز ہوگیا، بعض لوگوں نے اسے ﴿بَلِ اَدرَكَ عِلْمُهُمْ فِي الْآخِرَةِ﴾ پڑھا ہے جس کا معنی یہ ہوگا کہ قیامت کے بارے میں تمام لوگوں کا علم برابر ہوگیا یعنی کوئی بھی اس کا وقت نہیں جانتا، اس کے بعد کلام کا رخ منکرین قیامت کی طرف پھیر دیا گیا ہے کہ یہ مشرکین قیامت کی آمد میں شک کرتے ہیں، بلکہ ان کے دل اندھے ہوگئے ہیں کہ اس کی تصدیق کرنے کے لیے تیار ہی نہیں ہیں۔ بعض لوگوں نے’’ ادارک‘‘ کا معنی تکامل کیا ہے اور ماضی کو مستقبل کے معنی میں مانا ہے۔ یعنی قیامت کے دن جب مشرکین سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے تو آخرت پر ان کا یقین کامل ہوجائے گا، لیکن اس علم سے انہیں کوئی فائدہ نہ ہوگا کیونکہ دنیا میں اس کے بارے میں شک میں تھے اور مختلف انداز میں اس کی تکذیب کرتے رہے تھے۔ زجاج وغیرہ نے کہا ہے کہ اس آیت میں انکار کا معنی پایا جاتا ہے اس لیے معنی یہ ہوگا کہ مشرکین کے علم نے آخرت کا ادراک نہیں کیا، بلکہ اس کے بارے میں ہمیشہ شک میں رہے، بلکہ دل کے اندھے ہونے کی وجہ سے انہیں اس کے بارے میں کوئی علم حاصل ہی نہیں ہوا۔ کئی مفسرین نے اسی کو ترجیح دی ہے۔ و باللہ التوفیق۔