أَمَّن يُجِيبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ وَيَكْشِفُ السُّوءَ وَيَجْعَلُكُمْ خُلَفَاءَ الْأَرْضِ ۗ أَإِلَٰهٌ مَّعَ اللَّهِ ۚ قَلِيلًا مَّا تَذَكَّرُونَ
اچھا بتاؤ وہ کون ہے جو بے قرار دلوں کا پکار سنتا ہے (جب وہ ہر طرف سے مایوس ہوکر) اسے پکارنے لگتے ہیں اور وہ ان کے درد دکھ ٹال دیتا ہے ؟ وہ کہ اس نے تمہیں زمین کا جانشین بنایا ہے کیا اللہ کے ساتھ کوئی دوسرا بھی ہے؟ افسوس تمہاری غفلت پر) بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ تم نصیحت پذیر ہو
تیسرا سوال یہ کیا کہ جب انسان کو کوئی پریشانی لاحق ہوتی ہے کسی مرض میں مبتلا ہوتا ہے یا کسی مصیبت میں گرفتار ہوجاتا ہے یا کسی ظالم کے ہتھے چڑھ جاتا ہے تو وہ بے تحاشا کسے پکارتا ہے اور کون ہے جو اس کی فریاد رسی کرتا ہے اور اس کی مصیبت کو دور کردیتا ہے؟ اور کون ہے جو کچھ کو موت دیتا رہتا ہے اور ان کی نسلوں کو زمین کا وارث بناتا رہتا ہے؟ جواب معلوم ہے کہ وہ اللہ ہے۔ تو اے مشرکین مکہ ! پھر کیوں تم اسے چھوڑ کر معبودان باطل کے سامنے سربسجود ہوتے ہو؟ حقیقت یہ ہے کہ تم لوگ بہت ہی کم نصیحت حاصل کرتے ہو۔ مضطر کی دعا کی مناسبت سے حافظ ابن القیم نے اپنی کتاب الجواب الکافی میں لکھا ہے کہ اگر دعا کرتے وقت پورے طور پر حضور قلب حاصل ہو، اپنی حاجت و ضرورت کا شدید احساس ہو اور رب العالمین کے حضور انتہائی عاجزی و انکساری اور غایت درجہ کا خشوع و خضوع حاصل ہو اور دل پر رقت طاری ہو اور اس حال میں بندہ اپنے رب کے پاکیزہ ناموں اور اعلی صفات کو وسیلہ بنا کر دعا کرے تو ایسی دعا شاید ہی رد کی جاتی ہے۔