إِنَّ الدِّينَ عِندَ اللَّهِ الْإِسْلَامُ ۗ وَمَا اخْتَلَفَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ إِلَّا مِن بَعْدِ مَا جَاءَهُمُ الْعِلْمُ بَغْيًا بَيْنَهُمْ ۗ وَمَن يَكْفُرْ بِآيَاتِ اللَّهِ فَإِنَّ اللَّهَ سَرِيعُ الْحِسَابِ
بلاشبہ "الدین" (یعنی دین) اللہ کے نزدیک "الاسلام" ہی ہے اور یہ اور یہ جو اہل کتاب نے آپس میں اختلاف کیا (اور گروہ بندیاں کرکے الگ الگ دین بنا لیے) تو (یہ اس لیے نہیں ہوا کہ اس دین کے سوا انہیں کسی دوسرے دین کی راہ دکھلائی گئی تھی یا دین کی راہ مختلف ہوسکتی ہے بلکہ اس لیے کہ علم کے پاسنے کے بعد وہ اس پر قائم نہیں رہے اور آپس کی ضد و عناد سے الگ الگ ہوگئے۔ اور یاد رکھو جو کوئی اللہ کی آیتوں سے انکار کرتا ہے (اور ہدایت پر گمراہی کو ترجیح دیتا ہے) تو اللہ (کا قانون جزا) بھی حساب لینے میں سست رفتار نہیں
16۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اسلام کے علاوہ اور کوئی دین قابل قبول نہیں، ہر نبی یہی دین لے کر آئے، اور ان کے زمانے کے لوگوں کے لیے اسی کی اتباع لازم ہوئی، یہاں تک کہ نبی کریم ( صلی اللہ علیہ وسلم ) تشریف لائے، اور تمام سابقہ ادیان منسوخ ہوگئے، اور صرف وہ دین رہ گیا جو اللہ نے آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو دے کر مبعوث کیا۔ آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے بعد اگر کوئی شخص کسی دوسرے دین کی اتباع کرتے ہوئے دنیا سے رخصت ہوجائے گا تو اس کی موت کفر پر ہوگی، رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے فرمایا، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اس امت کا کوئی بھی آدمی جو میرے بارے میں سنے گا، چاہے وہ یہودی ہو یا نصرانی، اور دین اسلام پر ایمان نہیں لائے گا وہ جہنمی ہوگا (مسلم) آپ نے یہ بھی فرمایا کہ میں سرخ اور کالے تمام لوگوں کی طرف بھیجا گیا ہوں (مسلم) اور یہ بھی فرمایا کہ ہر نبی ایک خاص قوم کے لیے مبعوث ہوتا ہے اور میں تمام لوگوں کے لیے بھیجا گیا ہوں۔ (بخاری)۔ اس کے بعد اللہ نے فرمایا کہ یہود نے قرآن کا انکار لا علمی کی وجہ سے نہیں بلکہ حسد و عداوت کی وجہ سے کیا۔