قَدْ كَانَ لَكُمْ آيَةٌ فِي فِئَتَيْنِ الْتَقَتَا ۖ فِئَةٌ تُقَاتِلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَأُخْرَىٰ كَافِرَةٌ يَرَوْنَهُم مِّثْلَيْهِمْ رَأْيَ الْعَيْنِ ۚ وَاللَّهُ يُؤَيِّدُ بِنَصْرِهِ مَن يَشَاءُ ۗ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَعِبْرَةً لِّأُولِي الْأَبْصَارِ
بلاشبہ تمہارے لیے ان دو گروہوں میں (کلمہ حق کی فتح مندیوں کی) بڑی ہی نشانی تھی، جو (بدر کے میدان میں) ایک دوسرے کے مقابل ہوئے تھے۔ اس وقت ایک گروہ تو (مٹھی بھر بے سروسامان مسلمانوں کا تھا جو) اللہ کی راہ میں لڑ رہا تھا۔ دوسرا منکرین حق کا تھا جنہیں مسلمان اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے کہ ان سے دو چند ہیں (بایں ہمہ منکرین حق کو شکست ہوئی) اور اللہ جس کسی کو چاہتا ہے، اپنی نصرت سے مددگاری پہنچاتا ہے۔ بلاشبہ ان لوگوں کے لیے جو چشم بینا رکھتے ہیں، اس معاملہ میں بڑی عبرت ہے
10۔ یہاں بھی مخاطب یہود مدینہ ہیں، کہ غزوہ بدر میں جو کچھ ہوا اس سے تمہیں عبرت حاصل کرنی چاہئے تھی، اور سمجھ لینا چاہئے تھا کہ اللہ اپنے دین کو غالب کر کے رہے گا، اور اپنے رسول کی مدد ضرور کرے گا۔ سے مراد اللہ کے رسول اور اور صحابہ کرام ہیں، جن کی تعداد تین سو تیرہ تھی اور فئۃ اخری سے مراد مشرکین قریش ہیں، جن کی تعداد ایک ہزار کے قریب تھی، اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ کفار کو مسلمان اپنے سے دوگنا نظر آنے لگے، یہ اللہ کی طرف سے مسلمانوں کی مدد تھی تاکہ کفار پر رعب طاری ہوجائے، اس کے علاوہ اللہ نے مسلمانوں کی مدد فرشتوں کے ذریعہ بھی کی، اور یہ جو سورۃ انفال میں آیا ہے اور تمہیں ان کی نظروں میں کم دکھایا، تو یہ ابتدائے امر میں ہوا تاکہ کفار ڈر کے مارے بھاگ نہ جائیں، اور جب دونوں فوجیں ٹکرا گئیں تو اللہ نے مسلمانوں کو کافروں کی نظر میں دوگنا کر دکھایا، تاکہ کافروں پر رعب طاری ہوجائے، اور اللہ نے جس امر کا فیصلہ کردیا تھا وہ ہو کر رہا، یعنی کفار قریش کے کشتوں کے پشتے لگ جائیں۔