رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِن لَّدُنكَ رَحْمَةً ۚ إِنَّكَ أَنتَ الْوَهَّابُ
(ان ارباب عقل و بصیرت کی صدائے حال ہمیشہ یہ ہوتی ہے کہ) خدایا ! ہمیں سیدھے رستے لگا دینے کے بعد ہمارے دلوں کو ڈانوا ڈول نہ کر، اور ہمیں اپنے پاس سے رحمت عطا فرما ! یقینا تو ہی ہے کہ بخشش میں تجھ سے بڑا کوئی نہیں
7۔ چونکہ یہاں مستقیم اور منحرف دو قسم کے لوگوں کا ذکر ہورہا ہے، اس لیے اللہ نے مؤمنوں کو تعلیم دی کہ وہ اللہ سے ایمان پر ثبات قدمی کی دعا کیا کریں، اور اس بات کا دل سے اقرار کریں کہ وہ بعث بعد الموت اور جزا و سزا پر یقین رکھتے ہیں، اور یہ کہ اللہ نے جو وعدہ کیا ہے وہ ہو کر رہے گا، ترمذی نے عائشہ (رض) سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اکثر و بیشتر یہ دعا کرتے تھے یا مقلب القلوب ثبت قلبی علی دینک، کہ اے دلوں کو الٹ پھیر کرنے والے ! میرے دل کو تو اپنے دین پر قائم رکھ، میں نے کہا : اے اللہ کے رسول ! آپ یہ دعا بہت زیادہ مانگا کرتے ہیں۔ تو آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے فرمایا کہ ہر انسان کا دل رحمان کی دو انگلیوں کے درمیان ہوتا ہے، چاہتا ہے تو حق پر قائم رکھتا ہے، اور چاہتا ہے تو اسے گمراہ کردیتا ہے۔