لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا ۚ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَيْهَا مَا اكْتَسَبَتْ ۗ رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِن نَّسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَا ۚ رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَيْنَا إِصْرًا كَمَا حَمَلْتَهُ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِنَا ۚ رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَةَ لَنَا بِهِ ۖ وَاعْفُ عَنَّا وَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا ۚ أَنتَ مَوْلَانَا فَانصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ
اللہ کسی جان پر اس کی طاقت سے زیادہ ذمہ داری نہیں ڈالتا۔ ہر جان کے لیے وہی ہے، جیسی کچھ اس کی کمائی ہے۔ جو کچھ اسے پانا ہے، وہ بھی اس کی کمائی سے ہے، اور جس کے لیے اسے جواب دہ ہونا ہے، وہ بھی اس کی کمائی ہے (پس ایمان والوں کی صدائے حال یہ ہوتی ہے کہ) خدایا ! اگر ہم سے (سعی و عمل میں) بھول چوک ہوجائے تو اس کے لیے نہ پکڑیوں اور ہمیں بخش دیجیو ! خدایا ! ہم پر بندھنوں اور گرفتاریوں کا بوجھ نہ ڈالیو جیسا ان لوگوں پر ڈالا تھا جو ہم سے پہلے گزر چکے ہیں ! خدایا ! بوجھ ہم سے نہ اٹھوائیو جس کے اٹھانے کی ہم (ناتوانوں ٰ میں سکت نہ ہو ! خدایا ہم سے درگزر کر ! خدایا ہم پر رحم کر ! خدایا ! تو ہی ہمارا مالک و آقا ہے۔ پس ان (ظالموں) کے مقابلے میں جن کا گروہ کفر کا گروہ ہے، ہماری مدد فرما
دوسری آیت میں اس بات کی خبر دی ہے کہ اللہ تعالیٰ بندے کو اتنا ہی مکلف کرتا ہے جتنے کی وہ طاقت رکھتا ہے، اور یہ کہ وہ اپنے قول و فعل کا ذمہ دار ہے، اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے بندے کو اپنی جناب میں گریہ و زاری اور دعا کرنے کی تعلیم دی ہے، تاکہ جو تقصیر حاصل ہوئی ہے اسے اللہ معاف کردے۔ اور اللہ تعالیٰ نے مؤمنین کی یہ دعا قبول کرلی، جیسا کہ صحیح مسلم میں ابوہریرہ (رض) سے مروی ہے کہ جب بندوں نے یہ دعا کی تو اللہ نے کہا کہ ہاں ! میں نے قبول کرلیا، ابن عباس (رض) سے بھی ایسا ہی مروی ہے (مسلم) (فائدہ) اس آیت سے یہ شرعی قاعدہ ماخوذ ہے کہ دین اسلام میں تمام اعمال کی بنیاد نرمی اور آسانی پر ہے۔