لَّا تَجْعَلُوا دُعَاءَ الرَّسُولِ بَيْنَكُمْ كَدُعَاءِ بَعْضِكُم بَعْضًا ۚ قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنكُمْ لِوَاذًا ۚ فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَن تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ
مسلمانو۔ جب پیغمبر اسلام تم میں سے کسی کو بلائیں تو ان کے بلانے کو آپس میں ایسی (معمولی) بات نہ سمجھو، جیسے تم میں سے ایک آدمی دوسرے آدمی کو بلایا کرتا ہے، اللہ ان لوگوں کو اچھی طرح جانتا ہے جو (مجمع سے) چھپ کرکھسک جاتے ہیں۔ حکم رسول کی مخالفت کرنے والوں کو ڈرنا چاہیے، کہیں ایسا نہ ہو، ان پر کوئی آفت آپڑے یادردناک عذاب سے دوچار ہوں (٤٦)۔
38۔ ابن الاثیر اور شوکانی وغیرہ کہتے ہیں کہ اس آیت کا تعلق اوپر کی آیت سے ہے، یعنی اس کا مفہوم یہ ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) اگر تمہیں کسی ضرورت کے لیے بلائیں تو اسے اوروں کے بلانے پر قیاس نہ کرو، اور بغیر آپ کی اجازت کے مجلس سے اٹھ کر نہ جایا کرو ﴿ قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِوَاذًا﴾ میں ان منافقین کی طرف اشارہ ہے جو آپ سے اجازت لیے بغیر یکے بعد دیگرے چپکے سے ان مجلسوں سے چلے جاتے تھے جہاں رسول اللہ (ﷺ) کو صحابہ کی ضرورت ہوتی تھی۔ سعید بن جبیر اور مجاہد کہتے ہیں کہ آپ کا نام لے کر سخت لہجے میں نہ پکارو، بلکہ نرمی کے ساتھ یا رسول اللہ (ﷺ) کہہ کر پکارو۔ بعض کے نزدیک اس کا مفہوم یہ ہے کہ آپ کو ناراض کر کے ان بدعا کے مستحق نہ بنو، اس لیے کہ آپ کی بد دعا قبول ہوجاتی ہے۔ صاحب محاسن التنزیل نے ابن ابی الحدید اور مہایمی وغیرہم کے حوالے سے لکھا ہے کہ آیت میں دعا سے مراد حکم ہے یعنی رسول اللہ (ﷺ) کے حکم کو غیروں کے حکم پر قیاس نہ کرو۔ اور اس کی دلیل ﴿ فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ﴾ ہے کہ جو لوگ آپ کے حکم کی مخالفت کرتے ہیں انہیں ڈرتے رہنا چاہیے کہ وہ کسی آزمائش میں نہ ڈال دیے جائیں، یا کوئی دردناک عذاب نہ انہیں اپنی گرفت میں لے لے۔ آزمائش سے مراد کسی نے قتل، کسی نے زلزلہ کسی نے ظالم حاکم کا تسلط اور کسی نے دل پر اللہ کی جانب سے مہر لیا ہے۔ ﴿فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ﴾ آیت کا یہ حصہ اس بات کی دلیل ہے کہ زندگی کے تمام امور کو نبی کریم (ﷺ) کی لائی ہوئی شریعت اور ان کی سنت کی کسوٹی پر پرکھنا واجب ہے، جو چیز آپ کی سنت کے مطابق ہوگی اسے قبول کرلی جائے گی، او جو قول و عمل اس کے مخالف ہوگا اسے رد کردیا جائے گا، چاہے کہنے یا کرنے والا کوئی بھی انسان ہو۔ صحیحن کی روایت ہے کہ نبی کریم (ﷺ) نے فرمایا : جس کسی نے کوئی ایسا کام کیا جو ہماری سنت کے مطابق نہیں ہے وہ مردود اور ناقابل قبول ہے۔ فقہا نے اسی آیت سے استدلال کرتے ہوئے کہا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کا امر وجوب کے لیے ہوتا ہے اس لیے کہ یہاں آپ کے حکم کو ترک کردینے کا لازمی نتیجہ دو سزاؤں میں سے ایک کو بتایا گیا ہے کہ یا تو کوئی بلا نازل ہوگی یا کوئی دردناک عذاب، اس لیے جو لوگ نبی کریم (ﷺ) کی سنت کی مخالفت کرتے ہیں، یا فاسد تاویلوں کے ذریعہ دوسروں کے اقوال کو اس پر ترجیح دیتے ہیں، انہیں اس آیت پر ضرور غور کرنا چاہیے اور رسول کریم کے مقام و محبت کا تصور کرتے ہوئے، کسی کے قول و عمل کو سنت کے مقابلے میں درخور اعتناء نہیں سمجھنا چاہیے۔ ﴿ ذَلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ ﴾ یہ بھی اللہ کا فضل و کرم ہے جس سے وہ سب کو نہیں نوازتا۔