إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَإِذَا كَانُوا مَعَهُ عَلَىٰ أَمْرٍ جَامِعٍ لَّمْ يَذْهَبُوا حَتَّىٰ يَسْتَأْذِنُوهُ ۚ إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَأْذِنُونَكَ أُولَٰئِكَ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ ۚ فَإِذَا اسْتَأْذَنُوكَ لِبَعْضِ شَأْنِهِمْ فَأْذَن لِّمَن شِئْتَ مِنْهُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَهُمُ اللَّهَ ۚ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
سچے مومن تو وہ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول پر سچے دل سے ایمان لائے ہیں اور اگر کسی ایسے کام میں جو لوگوں کے اکٹھے ہونے کا کام ہے، اللہ کے رسول کے ساتھ ہوت ہیں تو کبھی اٹھ کر نہیں جاتے جب تک اس سے اجازت نہیں لے لیتے۔ (اے پیغمبر) جو لوگ ایسے موقعوں پر تجھ سے اجازت لینی چاہتے ہیں وہی اللہ اور اس کے رسول کے سچے مومن ہوئے پس جب ایسے لوگ اپنے کسی ضروری کام کے لیے اجازت مانگیں تو جسے اجازت دینی مناسب سمجھے، دے دیا کر، اور اللہ کے حضور اس کے لیے بخشش کی دعا کر، بلاشبہ اللہ بڑا ہی بخشنے والا بڑا ہی رحمت والا ہے۔
37۔ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام کو نبی کریم (ﷺ) کی مجلسوں میں جانے اور وہاں سے رخصت ہونے کا ادب سکھلایا ہے کہ وہ مومنین جو اللہ اور رسول پر صدق دل سے ایمان رکھتے ہیں جب وہ نبی کریم (ﷺ) کے ساتھ کسی اہم موقع پر ہوتے ہیں جیسے کسی جنگی مسئلہ میں رائے مشورہ، اسلام اور مسلمانوں کا دفاع یا کوئی اور اہم مسئلہ جس پر غور و خوض کرنے کے لیے تمام صحابہ کا ہونا ضروری ہوتا ہے تو وہ آپ کی اجازت کے بغیر مجلس سے اٹھ کر نہیں چلے جاتے، کیونکہ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان کا یہی تقاضا ہے۔ اسی لیے اس کے بعد اللہ نے صراحت کردی کہ جو لوگ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھتے ہیں وہی لوگ آپ سے اجازت مانگتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ منافقین آپ سے اجازت نہیں لیتے، یعنی اجازت لے کر جانا صدق ایمان کی دلیل ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول سے فرمایا کہ اگر آپ کے صحابہ اپنی بعض ضرورتوں کے لیے اجازت مانگیں، تو حالات کے مطابق آپ جنہیں چاہیں اجازت دے دیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر مسلمانوں کی ضرورت اس بات کا تقاضا کرتی ہو کہ انہیں اجازت نہ دی جائے تو اجازت نہ دیجیے اور اللہ اور رسول پر ایمان کا تقاضا ہے کہ صحابہ اس حکم کو برضائے نفس قبول کرلیں، اور رسول اللہ (ﷺ) کے حکم کو اپنی ضرورت پر ترجیح دیں، اور﴿ وَاسْتَغْفِرْ لَهُمُ﴾ میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ صحابہ کے لیے بہتر یہی ہے کہ وہ آپ کی مجلس سے جانے کی نہ سوچیں اور اجازت نہ لیں۔ بیہقی نے دلائل النبوۃ میں عروہ اور محمد بن کعب القرظی سے نقل کیا ہے کہ یہ آیت خندق کھودنے کے موقع سے نازل ہوئی تھی، جب منافقین رسول اللہ (ﷺ) سے بغیر اجازت لیے چپکے سے اپنے گھروں کو چلے جاتے تھے اور مخلص مسلمان آپ سے اجازت لے کر جاتے اور ضرورت پوری ہوتے ہی واپس آجاتے تھے۔ زجاج کہتے ہیں کہ ہر دور میں مسلمانوں کا اپنے اماموں کے ساتھ ایسا ہی برتاؤ ہونا چاہیے کہ ان کی مخالفت نہ کریں اور ان کی اجازت کے بغیر ان کی اہم مجلسوں سے خاموشی کے ساتھ اٹھ کر غائب نہ ہوجائیں، حالات کے تقاضے کے مطابق امام اگر چاہے گا تو اجازت دے گا ورنہ جانے سے روک دے گا۔