وَلَا نُكَلِّفُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا ۖ وَلَدَيْنَا كِتَابٌ يَنطِقُ بِالْحَقِّ ۚ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ
اور ہم کسی جان پر ذمہ داری نہیں ڈالتے مگر اتنی ہی جتنی کی اس میں طاقت ہے (یعنی استعداد ہے) ہمارے پاس (ان سب کی حالت و استعداد کے لیے) نوشتہ ہے جو ٹھیک ٹحیک (حقیقت حال کے مطابق) حکم لگا دیتا ہے۔ ایسا کبھی نہیں ہوسکتا کہ کسی جان کے ساتھ نا انصافی ہو۔
17۔ اعمال صالحہ کی طرف سبقت کرنے والوں کا جب ذکر آیا، تو یہ بتانا مناسب رہا کہ اللہ تعالیٰ بندوں کو ان کی طاقت سے زیادہ کا مکلف نہیں بناتا، انسان اپنی وسعت بھر کوشش کر کے اپنے رب کی رضا اور اس کی جنت کو پاسکتا ہے۔ اس کے بعد اللہ نے بھلائی کی طرف سبقت کرنے والوں کو بتایا کہ ان کے اعمال ایک ایسی کتاب میں لکھے جارہے ہیں جو کسی بھی نیکی یا بدی کو ضائع نہیں ہونے دیتی ہے، اس لیے ان کے ساتھ بے انصافی نہیں ہوگی، بلکہ ان نیکیوں کا انہیں پورا پورا بدلہ دیا جائے گا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الجاثیہ آیت (29) میں فرمایا : ﴿ هَذَا كِتَابُنَا يَنْطِقُ عَلَيْكُمْ بِالْحَقِّ إِنَّا كُنَّا نَسْتَنْسِخُ مَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ﴾ یہ ہے ہماری کتاب جو تمہارے بارے میں سچ سچ بول رہی ہے، ہم تمہارے اعمال لکھواتے جاتے ہیں۔