سورة البقرة - آیت 266

أَيَوَدُّ أَحَدُكُمْ أَن تَكُونَ لَهُ جَنَّةٌ مِّن نَّخِيلٍ وَأَعْنَابٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ لَهُ فِيهَا مِن كُلِّ الثَّمَرَاتِ وَأَصَابَهُ الْكِبَرُ وَلَهُ ذُرِّيَّةٌ ضُعَفَاءُ فَأَصَابَهَا إِعْصَارٌ فِيهِ نَارٌ فَاحْتَرَقَتْ ۗ كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمُ الْآيَاتِ لَعَلَّكُمْ تَتَفَكَّرُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

کیا تم میں سے کوئی آدمی بھی یہ بات پسند کرے گا کہ اس کے پاس کھجوروں کے درختوں اور انگوروں کی بیلوں کا باغ ہو۔ اس میں نہریں بہہ رہی ہوں۔ نیز اس میں اور بھی ہر طرح کے پھل پھول پیدا ہوتے ہوں۔ پھر ایسا ہو کہ جب بڑھاپا آجائے اور ناتواں اولاد اس آدمی کے چاروں طرف جمع ہوں، تو اچانک ایک جھلستی ہوئی آندھی چلے اور (آن کی آن میں) باغ جل کر ویران ہوجائے؟ اللہ ایسی ہی مثالوں کے پیرایہ میں تم پر (حقیقت کی) نشانیاں واضح کردیتا ہے تاکہ غو و فکر سے کام لو۔

تفسیرتیسیرارحمٰن - محمد لقمان سلفی

تیسری قسم : ان لوگوں کی ہے جو خرچ تو کرتے ہیں اللہ کے لیے لیکن اس کے بعد احسان جتاتے ہیں، اور لوگوں کو بتا بتا کر صاحب حاجت کو اذیت پہنچاتے ہیں، اور اس طرح اپنا عمل ضائع کردیتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی مثال اس آدمی کی ہے جس کے پاس کھجوروں اور انگوروں کا باغ ہو جس کے نیچے نہریں جاری ہوں اور جس میں ہر قسم کے پھل ہوں اور باغ والا بوڑھا ہوچکا ہو، اور اس کے پاس چھوٹے چھوٹے بچے ہوں اچانک ایک سخت آندھی آتی ہے جو کہیں سے آگ اٹھا کر لاتی ہے اور باغ کو جلا دیتی ہے اور باغ والے کو کچھ نظر نہیں آتا۔ دنیا میں نیک اعمال کرنے والے انہیں تینوں قسموں میں سے ایک قسم کے ہوتے ہیں۔ مسلمان کو چاہئے کہ اپنی نیت کا محاسبہ کرتا رہے، اور ہر ممکن کوشش کرے کہ اس کا ہر عمل صالح صرف اللہ کی رضا کے لیے ہو، تاکہ آخرت میں ذلت و رسوائی اور خسارے کا منہ نہ دیکھنا پڑے۔