لِّيَجْعَلَ مَا يُلْقِي الشَّيْطَانُ فِتْنَةً لِّلَّذِينَ فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ وَالْقَاسِيَةِ قُلُوبُهُمْ ۗ وَإِنَّ الظَّالِمِينَ لَفِي شِقَاقٍ بَعِيدٍ
اس میں (ایک بڑی) مصلحت یہ رہی ہے کہ شیطان کی وسوسہ اندازی ان لوگوں کی آزمائش کا ذریعہ ہوجائے جن کے دل روگی ہیں اور (سچائی کی طرف سے) سخت پڑگئے ہیں اور بلاشبہ یہ ظلم کرنے والے بڑی ہی گہری مخالفت میں پڑے ہیں۔
ایسا اس لیے ہوتا رہا تاکہ اللہ تعالیٰ ان کلمات کو منافقین و مشرکین کے لیے گمراہی اور حق سے دوری کا سبب بنا دے، اور اہل علم مومنوں کا ایمان مزید راسخ ہوجائے کہ قرآن کریم میں جو آیات ثابت ہیں وہی برحق ہیں اور ان پر ایمان لانا ضروری ہے، اور اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا رہا کہ ان کے دلوں کو سکون و اطمینان حاصل ہو اور ان کا ایمان اور بڑھ گیا۔ صاحب محاسن التنزیل نے اس کی تفسیر یہ بیان کی ہے کہ جب بھی کسی رسول یا نبی نے چاہا کہ اس کی دعوت پھیلے اور اس کی لائی ہوئی شریعت کو تیزی کے ساتھ سربلندی حاصل ہو، تو شیطان نے رکاوٹیں کھڑی کرنی چاہیں، اور لوگوں کو اس کی دعوت قبول کرنے سے روکنا چاہا، لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کی چالوں کو ناکام بنا دیا اور اپنے دین اور اپنی آیتوں کو استحکام عطا کیا۔