وَكَأَيِّن مِّن قَرْيَةٍ أَمْلَيْتُ لَهَا وَهِيَ ظَالِمَةٌ ثُمَّ أَخَذْتُهَا وَإِلَيَّ الْمَصِيرُ
اور کتنی ہی بستیاں ہیں جنہیں ہم نے (ابتدا میں) ڈھیل دی اور وہ ظالم تھیں۔ پھر ہم نے مواخذہ میں پکڑ لیا اور بالآخر سب کو ہماری ہی طرف لوٹنا ہے۔
اسی لیے آیت (48) میں اللہ نے فرمایا کہ اس نے بہت سی گناہگار بستیوں کو مہلت دی، لیکن جب وہ اپنے گناہوں سے باز نہیں آئیں تو انہیں اچانک اپنی گرفت میں لے لیا، اس لیے مشرکین کی جلد بازی کا کوئی معنی نہیں ہے۔ اگر دنیا کے عذاب سے بچ جائیں گے، تو انہیں بہرحال میری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے، جہاں دائمی اور ابدی عذاب ان کا انتظار کر رہا ہے۔ فخر الدین رازی نے آیت (47) کا مفہوم یہ بیان کیا ہے کہ عقلمند انسان کو عذاب آخرت کی جلدی نہیں مچانی چاہیے، اس لیے کہ آخرت میں ایک دن کا عذاب، شدت کرب و الم کے اعتبار سے ایک ہزار سال کے عذاب کے برابر ہوگا، اگر لوگوں کو عذاب آخرت کی شدت کا اندازہ ہوتا تو جلدی نہ مچاتے۔