سورة الحج - آیت 39

أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقَاتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا ۚ وَإِنَّ اللَّهَ عَلَىٰ نَصْرِهِمْ لَقَدِيرٌ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

جن (مومنوں) کے خلاف ظالموں نے جنگ کر رکھی ہے، اب انہیں بھی (اس کے جواب میں) جنگ کی رخصت دی جاتی ہے کیونکہ ان پر سراسر ظلم ہورہا ہے اور اللہ ان کی مدد کرنے پر ضرور قادر ہے۔

تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ

(24) ترمذی، نسائی اور طبری وغیرہم نے ابن عباس سے روایت کی ہے کہ جب نبی کریم (ﷺ)مکہ سے نکل جانے پر مجبور کردیئے گئے تو یہ آیت نازل ہوئی۔ ابوبکر نے جب یہ آیت سنی تو کہا کہ اب جنگ ہوگی۔ مسند احمد کی ایک روایت میں ہے، ابن عباس نے کہا کہ جہاد سے متعلق یہ پہلی آیت نازل ہوئی تھی، مکہ مکرمہ میں مسلمانوں کی تعداد کم اور مشرکین کی تعداد زیادہ تھی، اسی لیے اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو صبر کی تلقین کرتا رہا۔ بیعۃ العقبۃ کی رات میں اہل مدینہ کی تعداد اسی سے زیادہ تھی، انہوں نے رسول اللہ (ﷺ) کے ہاتھ پر بیعت کرنے کے بعد اجازت چاہی کہ منی میں موجود مشرکوں کو قتل کردیں، تو آپ نے فرمایا کہ مجھے اس کی اجازت نہیں دی گئی ہے۔ ہجرت کے بعد جب رسول اللہ (ﷺ) اور مہاجرین مدینہ میں جمع ہوگئے اور مہاجرین اور انصار کی مجموعی تعداد سے مسلمانوں کی ایک اچھی خصی طاقت وجود میں آگئی، اور مدینہ میں ان کی چھاؤنی اور مسلمانوں کا دار السلام بن گیا، تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کر کے جہاد کو مشروع کردیا۔