وَالْبُدْنَ جَعَلْنَاهَا لَكُم مِّن شَعَائِرِ اللَّهِ لَكُمْ فِيهَا خَيْرٌ ۖ فَاذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَيْهَا صَوَافَّ ۖ فَإِذَا وَجَبَتْ جُنُوبُهَا فَكُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْقَانِعَ وَالْمُعْتَرَّ ۚ كَذَٰلِكَ سَخَّرْنَاهَا لَكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ
اور (دیکھو قربانی کے یہ) اونٹ (جنہیں دور دور سے حج کے موقع پر لایا جاتا ہے) تو ہم نے اسے ان چیزوں میں سے ٹھہرا دیا ہے جو تمہارے لیے اللہ کی (عبادت کی) نشانیوں میں سے ہیں، اس میں تمہارے لیے بہتری کی بات ہے، پس چاہیے کہ انہیں قطار در قطار ذبح کرتے ہوئے اللہ کا نام یاد کرو، پھر جب وہ کسی پہلو پر گر پڑیں، (یعنی ذبح ہوجائیں) تو ان کے گوشت میں سے خود بھی کھاؤ اور فقیروں اور زائروں کو بھی کھلاؤ، اس طرح ہم نے ان جانوروں کو تمہارے لیے مسخر کردیا تاکہ (احسان الہی کے) شکر گزار ہو۔
(21) اللہ تعالیٰ کا اپنے مومن بندوں پر یہ احسان ہے کہ اس نے اونٹ اور گائے کو ہدی کا جانور قرار دیا، جنہیں وہ اللہ کی نشانی کے طور پر خانہ کعبہ کے پاس ذبح کرنے کے لیے لے جاتے ہیں، ہدی اور قربانی کے ان جانوروں میں اللہ نے مسلمانوں کے لیے بڑے فوائد رکھے ہیں، سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ بندہ اللہ کے نام پر قربانی کر کے اس کی قربت حاصل کرتا ہے، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جب ان کا ایک بایاں پاؤں باندھ کر ان کی گردن پر چھری پھیرو تو بسم اللہ واللہ اکبر کہو، اور جب وہ زمین پر گر کر ٹھنڈے ہوجائیں تو خود بھی ان کا گوشت کھاؤ، اور محتاجوں اور ان لوگوں کو کھلاؤ جو ان دنوں تمہاری زیارت کے لیے آئیں۔ اس آیت سے قربانی کا یہ حکم استنباط کیا گیا ہے کہ قربانی کا گوشت تین حصوں میں کردینا چاہیے۔ ایک حصہ آدمی خود کھائے، ایک حصہ ہدیہ کردے اور ایک حصہ صدقہ کردے، اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ مومنو ! ہم نے ان جانوروں کو تمہارے لیے مسخر کردیا ہے تم ان پر سوار ہوتے ہو، ان کا دودھ پیتے ہو، اور ان کا گوشت کھاتے ہو ایسا اس لیے کیا ہے تاکہ تم اپنے قول و عمل کے ذریعہ اس کا شکر ادا کرو۔