أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ خَرَجُوا مِن دِيَارِهِمْ وَهُمْ أُلُوفٌ حَذَرَ الْمَوْتِ فَقَالَ لَهُمُ اللَّهُ مُوتُوا ثُمَّ أَحْيَاهُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ لَذُو فَضْلٍ عَلَى النَّاسِ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَشْكُرُونَ
(اے پیغمبر) کیا تم نے ان لوگوں کی سرگزشت پر غور نہیں کیا جو اپنے گھروں سے نکل کھڑے ہوئے تھے۔ اور باوجودیکہ ہزاروں کی تعداد میں تھے مگر (دلوں کی بے طاقتی کا یہ حالت تھا کہ) موت کے ڈر سے بھاگ گئے تھے۔ اللہ کا حکم ہوا (تم موت کے ڈر سے بھاگ رہے ہو تو دیکھو اب تمہارے لیے موت ہی ہے (یعنی ان کی بزدلی کی وجہ سے دشمن ان پر غالب آگئے) پھر (ایسا ہوا کہ) اللہ نے انہیں زندہ کردیا (یعنی عزم و ثبات کی ایسی روح ان میں پیدا ہوگئی کہ دشمنوں کے مقابلہ پر آمادہ ہوگئے اور فتح مند ہوئے) یقینا اللہ انسان کے لیے بڑا ہی فضل و بخشش رکھنے والا ہے لیکن (افسوس انسان کی غفلت پر) اکثر آدمی ایسے ہیں جو ناشکری کرنے والے ہیں
337: اس میں بنی اسرائیل کے ایک واقعہ کا ذکر کرکے مسلمانوں کو جہاد کی ترغیب دلائی گئی ہے، بنی اسرائیل کے ایک علاقے میں طاعون پھیل گیا، تو وہاں کے باشندے اپنے گھر بار چھوڑ کر موت کے ڈر سے بھاگ پڑے، لیکن بھاگ کرو وہ موت سے نہ بچ سکے، اور اللہ نے ان سب پر موت طاری کردی، پھر اس زمانے کے نبی کی دعا سے اللہ نے ان پر کرم فرمایا، اور انہیں زندہ کردیا۔ یہ بھی احتمال ہے کہ وہ لوگ کسی دشمن کے ڈر سے نکل بھاگے ہوں، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے بعد جہاد کی ترغیب دلائی ہے اور پھر اس بات کا ذکر کیا ہے کہ بنی اسرائیل نے اپنے نبی سے درخواست کی کہ وہ ان کے لیے ایک بادشاہ مقرر کردیں تاکہ اس کی قیادت میں اس دشمن سے جہاد کریں جس نے انہیں ان کے گھروں سے نکال دیا ہے۔ دونوں ہی صورتوں میں، آیت میں جہاد کی ترغیب دلائی گئی ہے، اور فرار کی راہ اختیار کرنے سے ڈرایا گیا ہے کہ اس کے ذریعے آدمی موت سے نہیں بچ سکتا۔