أُولَٰئِكَ الَّذِينَ اشْتَرَوُا الضَّلَالَةَ بِالْهُدَىٰ فَمَا رَبِحَت تِّجَارَتُهُمْ وَمَا كَانُوا مُهْتَدِينَ
(یقین کرو) یہی لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت کے بدلے گمراہی مول لی۔ لیکن نہ تو ان کی تجارت فائدہ مند نکلی نہ ہدایت ہی پر قائم رہے
32۔ ان منافقین کی طرف اشارہ ہے جن کے گھناؤنے اوصاف ابھی ابھی بیان کیے جا چکے ہیں، اور مقصود ان کی بد عقیدگی اور بدکرداری کی مزید توضیح و تاکید ہے۔ گمراہی اور ضلالت میں بھٹکنے کی ان کی رغبت اس قدر بڑھ گئی جیسے کوئی کسی نفیس سامان کو حاصل کرنے کے لیے اپنا قیمتی مال خرچ کردیتا ہے، انہوں نے اللہ کی طرف سے بھیجی گئی ہدایت دے کر گمراہی کو قبول کرلیا بڑی ہی بری تجارت تھی یہ، اور بڑی ہی بری شے انہوں نے خریدی، اور بڑی ہی قیمتی چیز انہوں نے ضائع کردی۔ 33: جب اللہ نے ان کی تجارت کو گھاٹے اور خسارے والی بتا دیا، تو یہاں اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ وہ بدنصیب لوگ تجارت کے اصولوں سے واقف ہی نہ تھے، انہیں پتہ ہی نہیں تھا کہ تجارت کیسے ہوتی ہے؟ یعنی منافقین کے اندر سے یہ صلاحیت ہی مسلوب تھی کہ وہ نفع نقصان، خیر و شر، نور وظلمت اور ہدایت و گمراہی میں تمیز کرپاتے۔