الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ ۖ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ ۗ وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَن تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئًا إِلَّا أَن يَخَافَا أَلَّا يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ ۖ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ ۗ تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ فَلَا تَعْتَدُوهَا ۚ وَمَن يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّهِ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ
طلاق (جس کے بعد رجوع کیا جاسکتا ہے) دو مرتبہ (کرکے دو مہینوں میں دو طلاقیں ہیں)۔ پھر اس کے بعد شوہر کے لیے دو ہی راستے رہ جاتے ہیں۔ یا تو اچھے طریقے پر روک لینا (یعنی رجوع کرلینا) یا پھر حسن سلوک کے ساتھ الگ کردینا۔ (یعنی تیسرے مہینے تیسری طلاق دے کر جدا ہوجا) اور تمہارے لیے جائز نہیں کہ جو کچھ اپنی بیویوں کو دے چکے ہو (طلاق دیتے ہوئے) اس میں سے کچھ واپس لے لو۔ ہاں اگر شوہر اور بیوی کو اندیشہ پیدا ہوجائے کہ اللہ کے ٹھہرائے ہوئے واجبات و حقوق ادا نہ ہوسکیں گے (تو باہمی رضامندی سے ایسا ہوسکتا ہے) تو اگر تم دیکھو ایسی صورت پیدا ہوگئی ہے کہ واقعی) اندیشہ ہے خدا کے ٹھہرائے ہوئے واجبات و حقوق ادا نہ ہوسکیں گے، تو پھر شوہر اور بیوی کے لیے اس میں کچھ گناہ نہ ہوگا، اگر بیوی (اپنا پیچھا چھڑانے کے لیے) بطور معاوضے کے (اپنے حق میں سے) کچھ دے دے (اور شوہر اسے لے کر علیحدگی پر راضی ہوجائے) یاد رکھو، یہ اللہ کی ٹھرائی ہوئی ھد بندیاں ہیں، پس ان سے قدم باہر نہ نکالوں (اور اپنی اپنی حدوں کے اندر رہو) جو کوئی اللہ کی ٹھہرائی ہوئی حد بندیوں سے نکل جائے گا، تو ایسے ہی لوگ ہیں جو ظلم کرنے والے ہیں
321: زمانہ جاہلیت اور ابتدائے اسلام میں دستور تھا کہ لوگ اپنی بیویوں کو بغیر تحدید عدد طلاق دیتے رہتے تھے، ایک طلاق کی مدت ختم ہونے سے پہلے رجوع کرلیتے تھے، اور پھر طلاق دے دیتے تھے، اور مقصود عورتوں کو نقصان پہنچانا ہوتا تھا، اس ظالمانہ فعل سے بہت سی عورتوں کی زندگی اجیرن ہوجاتی تھی۔ حضرت عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ ایک آدمی نے اپنی بیوی سے کہا کہ میں نہ تجھے الگ ہونے دوں گا اور نہ ہی تجھے پناہ دوں گا، عورت نے پوچھا کہ وہ کیسے؟ تو اس نے کہا کہ میں تجھے طلاق دوں گا، اور ہر بار عدت گذرنے سے پہلے تمہیں رجوع کرلوں گا، وہ عورت حضرت عائشہ (رض) کے پاس گئی اور انہیں یہ بات سنائی، تو عائشہ خاموش رہیں، جب رسول اللہ (ﷺ) تشریف لائے تو انہیں ماجرا سنایا، آپ (ﷺ) خاموش رہے، یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی کہ شوہر دو بار طلاق دینے کے بعد یا تو رجوع کرے گا، یا تیسری طلاق دے دے گا، اس کے بعد عورت جہاں چاہے گی، اور جس سے چاہے گی شادی کرلے گی، اب شوہر کو مزید طلاق ورجوع کا حق نہیں ہوگا۔ فائدہ: اللہ تعالیٰ نے اس آیت کریمہ میں یہ حکم بیان فرمایا ہے کہ اگر کوئی شوہر اپنی بیوی کو طلاق دینا چاہے تو اسے ایک طہر میں ایک طلاق دینی چاہئے، اس کے بعد اگر رجوع نہیں کرتا ہے تو پھر دوسرے طہر میں دوسری طلاق دینی چاہئے۔ آیت سے یہ بات ہرگز سمجھ میں نہیں آتی کہ اگر کوئی شخص ایک ہی بار دو طلاق دے دے تو دونوں واقع ہوجائے گی، دوسری طلاق کے بعد اگر چاہے تو عدت گذرنے سے پہلے رجوع کرلے، ورنہ تیسری طلاق دے کر ہمیشہ کے لیے رشتہ ازدواج کو ختم کرلے۔ اللہ تعالیٰ کو یہ بات پسند ہے کہ زن و شوہر کا رشتہ ازدواج الفت و محبت کی فضا میں ہمیشہ کے لیے استوار رہے، اور اگر کوئی عارضی اختلاف پیدا ہوجائے تو اسے دور کرنے کی کوشش کی جائے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے یکے بعد دیگرے تین طلاقوں کی مہلت دی ہے، تاکہ انسان کو بار بار سوچنے کا موقع ملے، اور عارضی ناراضگی ختم ہوجائے، اور شوہر اپنی بیوی کو رجوع کرلے، اگر ایک ہی طلاق رجعت سے مانع ہوتی، تو یہ عظیم مصلحت مفقود ہوجاتی اور بہت سے خاندان تباہ ہوجاتے، اور سوسائٹی میں ایسی خرابیاں پیدا ہوجاتیں جن کا تدارک ناممکن ہوگا۔ اسی طرح اگر ایک ہی مرتبہ کی تین طلاقیں یا ایک مجلس کی تین طلاقیں نافذ کردی جائیں تو وہی خرابیاں پیدا ہوں گی جن سے بچنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے تین طلاقیں الگ الگ طہر میں دینے کا حکم دیا ہے، بہت سے خاندان تباہ ہوجائیں، بہت سے بچے بربادی کی راہ پر لگ جائیں، اور بہت سی بے گناہ عورتوں کی زندگی میں آگ صرف اس لیے بھر جائے گی کہ اس کے شوہر نے وقتی طور پر طیش میں آ کر تین بار کلمہ طلاق اپنی زبان سے نکال دیا ہے۔ اسی لیے عہد نبوی، عہد ابوبکر، اور ابتدائے عہد عمر میں بالاتفاق ایک مجلس کی تین طلاقیں ایک شمار ہوتی تھیں۔ امام مسلم نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ عہد نبوی، عہد ابوبکر اور عہد عمر کے ابتدائی دو سالوں میں تین طلاقیں ایک مانی جاتی تھیں۔ حضرت عمر (رض) نے اپنے دور خلافت میں دیکھا کہ لوگوں نے کثرت سے طلاق دینی شروع کردی ہے، تو کہا کہ لوگوں نے اس معاملہ میں عجلت سے کام لینا شروع کردیا ہے، اس لیے ہم تین طلاقوں کو تین نافذ کردیں گے، چنانچہ نافذ کردیا، اور امام احمد نے ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ رکانہ بن عبد یزید نے اپنی بیوی کو ایک مجلس میں تین طلاق دے دی، اس کے بعد انہیں اس پر بڑا غم ہوا، تو رسول اللہ (ﷺ) نے ان سے پوچھا کہ تم نے کسی طرح طلاق دی ہے، تو انہوں نے کہا کہ ایک ساتھ تین طلاقیں دی ہیں۔ آپ (ﷺ) نے پوچھا کہ کیا ایک مجلس میں؟ تو انہوں نے کہا کہ ہاں تو آپ نے فرمایا کہ وہ سب ایک طلاق شمار ہوں گی، اگر چاہو تو رجوع کرلو، چنانچہ انہوں نے رجوع کرلیا۔ معلوم ہوا کہ حضرت عمر (رض) نے جو کچھ کیا یہ ان کی اپنی رائے تھی، جسے انہوں نے مصلحت عامہ کے تقاضے کے مطابق نافذ کردیا تھا، ورنہ انہیں سنت کا پتہ تھا، اور ایک مجلس کی تین طلاقوں کو تین حقیقی طلاق اعتبار کرنے سے زیادہ ان کا یہ فیصلہ ایک تعزیراتی اور اجتہادی حکم تھا، تاکہ لوگ آئندہ طلاق دینے میں عجلت سے کام نہ لیں۔ بعض علماء نے اس مسئلہ پر اجماع قدیم کا دعوی کیا ہے اور بہت سے صحابہ کرام اور تابعین نے اسی کے مطابق فتوی دیا ہے امام داود ظاہری، بعض اصحاب مالک اور بعض احناف کا بھی یہی قول ہے، اور بعض اصحابِ احمد اور شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ (رح) کے دادا بھی یہی فتوی دیا کرتے تھے۔ اس لیے کہ اس قول کی تائید قرآن و سنت، قیاس اور اجماع قدیم سب سے سے ہوتی ہے اور اس کے بعد کوئی ایسا اجماع نہیں آیا جس نے اس اجماع قدیم کو باطل قرار دے دیا ہو۔ اب جبکہ حالات بدل چکے، اور نکاحِ حلالہ کا بازار گرم ہے، اور لوگ حرام کاری میں مبتلا ہیں، اور جہالت اس قدر عام ہے کہ اکثر لوگ جانتے بھی نہیں کہ ایک مجلس کی تین طلاقیں تین فرض کرلی جاتی ہیں، ضرورت ہےکے رسول اللہ (ﷺ) اور ان کے خلیفہ کی سنت کو زندہ کیا جائے، تاکہ فتنوں کا دروازہ بند ہوجائے اور نکاح حلالہ کا رواج ختم ہو، اس لیے کہ ہر بھلائی قرآن و سنت کی اتباع میں ہے، اور ہر شر اور ہر برائی ان دونوں سے انحراف میں ہے۔ 322: یہاں شوہر کو نصیحت کی گئی ہے کہ اس کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ بیوی کو تنگ کرے اور ایسے حالات پیدا کرے کہ اس سے نجات پانے کے لیے بیوی کو جو کچھ بطور مہر یا ہدیہ وغیرہ دیا تھا واپس کردے، تاکہ وہ اسے طلاق دے دے، ہاں اگر بیوی بطیب نفس کچھ دے دیتی ہے تو وہ شوہر کے لیے حلال ہوگا۔ 323: یہ آیت احکامِ خلع کے بیان میں بنیاد مانی جاتی ہے، خلع یہ ہے کہ بیوی تھوڑ ا یا زیادہ مال دے کر شوہر کو طلاق دینے پر راضی کرلے، اس لیے کہ اس کے ساتھ کسی مجبوری کی وجہ سے ازدواجی زندگی نہیں گذارنا چاہتی۔ ابن جریر کہتے ہیں کہ یہ آیت ثابت بن قیس کے بارے میں نازل ہوئی تھی، ان کی بیوی ان سے شدید نفرت کرتی تھی، امام بخاری (رح) نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ ثابت بن قیس کی بیوی نبی کریم (ﷺ) کے پاس آئی اور کہا کہ اے اللہ کے رسول ! میں ثابت کے دین و اخلاق میں کوئی عیب نہیں لگاتی، لیکن اسلام کے بعد کفر کو مکروہ جانتی ہوں، یعنی ڈرتی ہوں کہ مجھ سے ان کے حق میں نافرمانی نہ ہوتی رہے، آپ (ﷺ) نے فرمایا کہ کیا تم اس کا باغ اسے واپس کردو گی؟ اس نے کہا ہاں، تو آپ (ﷺ) نے ثابت سے کہا کہ باغ لے لو اور اسے ایک طلاق دے دو، فائدہ : احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ خلع اسی صورت میں جائز ہے، جب قاضی کی نظر میں عورت کا عذر ثابت ہوجائے، بغیر عذر اور بغیر مجبوری کے اگر کوئی عورت اپنے شوہر سے خلع کراتی ہے تو اس کے بارے میں احادیث میں بڑی شدید وعید آئی ہے۔ مسند احمد میں ثوبان (رض) سے روایت ہے، رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا کہ جو عورت اپنے شوہر سے بغیر کسی مجبوری کے طلاق مانگے گی، اس پر جنت کی خوشبو حرام ہوگی۔ مسند احمد میں ابوہریرہ (رض) سے مروی ہے، رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا کہ خلع مانگنے والی اور اپنے شوہر سے جدائی مانگنے والی عورتیں منافق ہوتی ہیں۔