حَتَّىٰ إِذَا بَلَغَ مَغْرِبَ الشَّمْسِ وَجَدَهَا تَغْرُبُ فِي عَيْنٍ حَمِئَةٍ وَوَجَدَ عِندَهَا قَوْمًا ۗ قُلْنَا يَا ذَا الْقَرْنَيْنِ إِمَّا أَن تُعَذِّبَ وَإِمَّا أَن تَتَّخِذَ فِيهِمْ حُسْنًا
(اور پچھم کی طرف نکل کھڑا ہوا) یہاں تک کہ (چلتے چلتے) سورج کے ڈوبنے کی جگہ پہنچ گیا، وہاں اسے سورج ایسا دکھائی دیا جیسے ایک سیاہ دلدل کی جھیل میں ڈوب جاتا ہے اس کے قریب ایک گروہ کو بھی آباد پایا۔ ہم نے کہا اے ذوالقرنین (اب یہ لوگ تیرے اختیار میں ہیں) تو چاہے انہیں عذاب میں ڈالے چاہے اچھا سلوک کرکے اپنا بنا لے۔
(53) انتہائے مغرب میں اس نے دیکھا کہ آفتاب ایک ایسے چشمہ میں جاکر غروب ہوجاتا تھا جس کی مٹی کالی اور گرم تھی۔ مفسرین نے لکھا ہے کہ اس چشمہ سے مراد بحر اٹلانٹک ہے جس کے ساحل پر جاکر ذوالقرنین رک گیا اور جہاں غروب آفتاب کے وقت ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ اسی سمندر میں غروب ہورہا ہے ورنہ آفتاب تو چوتھے آسمان پر ہے۔ شوکانی لکھتے ہیں کہ کوئی بعید بات نہیں کہ ذوالقرنین اس سمندر کو پار کر کے انتہائے زمین تک پہنچ گیا ہو جہاں آفتاب غروب ہوجاتا تھا، وہاں اسے ایک قوم ملی جس پر اللہ تعالیٰ اسے غالب و حاکم بنا دیا انہیں اس نے دین ابراہیمی کی دعوت دی، تو کچھ لوگوں نے قبول کیا اور کچھ نے انکار کردیا، اللہ نے کہا کہ اے ذوالقرنین ! تم چاہو تو انکار کرنے والوں کو عذاب میں مبتلا کرو اور چاہو تو عفو و درگزر سے کام لو، اور حق کی طرف انہیں بلاتے رہو۔ جن لوگوں نے کہا کہ ذوالقرنین نبی تھا، انہوں نے اسی آیت سے استدلال کیا ہے اور جو لوگ اس کے نبی ہونے کے قائل نہیں ہیں وہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اسے یہ بات بذریعہ الہام بتائی تھی۔