سورة الكهف - آیت 65

فَوَجَدَا عَبْدًا مِّنْ عِبَادِنَا آتَيْنَاهُ رَحْمَةً مِّنْ عِندِنَا وَعَلَّمْنَاهُ مِن لَّدُنَّا عِلْمًا

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

پھر (جب چٹان کے پاس پہنچے) تو انہیں ہمارے (خاص) بندوں میں سے ایک بندہ مل گیا، اس شخص پر ہم نے خصوصیت کے ساتھ مہربانی کی تھی، اسے اپنے پاس سے (براہ راست) ایک علم عطا فرمایا تھا۔

تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ

وہاں ان کی ملاقات خضر سے ہوئی، جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے نوازا تھا اور اپنا ولی بنایا تھا اور بعض غیبی امور کا علم دیا تھا جو موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس بھی نہیں تھا، اکثر لوگوں کی یہی رائے ہے، ابن عباس نے آیت میں رحمۃ سے مراد نبوت لیا ہے۔ چنانچہ کچھ لوگوں کی رائے یہ ہے کہ خضر نبی تھے، واللہ اعلم بالصواب۔ عام محدثین اور شیخ الاسلام ابن تیمیہ کا قول یہ ہے کہ خضر کا انتقال ہوچکا ہے، اگر زندہ ہوتے تو نبی کریم کے پاس آکر ان پر ایمان لانا واجب ہوتا۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الانبیاء آیت (34) میں فرمایا : آپ سے پہلے کسی بھی انسان کو ہم نے ہمیشگی نہیں دی، کیا اگر آپ مر گئے تو وہ ہمیشہ کے لیے رہ جائیں گے۔ اور اس کے بعد والی آیت میں مزید تاکید کے طور پر فرمایا : كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِĬ ہر جان دار موت کا مزہ چکھنے والا ہے۔ اور نبی کریم نے فرمایا : ارایتکم لیلتکم ھذہ فان علی راس مائۃ سنۃ منھا لا یبقی ممن ھو علی ظھر الارض احد۔ اس رات کو یاد کرلو اس لیے کہ زمین پر آج جتنے بھی انسان زندہ ہیں، ان میں سے کوئی بھی سو سال کے بعد باقی نہیں رہے گا۔ (مسلم) اور مسلم ہی کی ایک دوسری روایت میں ہے : (واقسم باللہ ما علی الارض من نفس منفوسۃ تاتی علیھا مائۃ سنۃ۔ اللہ کی قسم ! زمین پر آج جتنے بھی جان دار ہیں ان پر سو سال گزر نہیں سکتا۔ مذکورہ بالا دلائل سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ خضر انتقال فرما چکے ہیں۔ صحیح بخاری میں ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) جب ان سے ملے تو کہا کہ میں آپ سے علم حاصل کرنے کے لیے آیا ہوں، تو خضر نے کہا آپ کے لیے کیا یہ کافی نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو تورات دی اور آپ پر وحی نازل ہوتی ہے۔ میرے پاس جو علم ہے اس کا حاصل کرنا آپ کے لیے مناسب نہیں ہے اور آپ کے پاس جو علم ہے اس کا حاصل کرنا میرے لیے مناسب نہیں ہے، پھر ایک چڑیا نے سمندر میں چونچ مارا تو خضر نے کہا کہ اللہ کی قسم ! میرا اور آپ کا علم اللہ کے علم کے مقابلہ میں ایسا ہی ہے جیسا اس چڑیا نے سمندر میں چونچ ماری ہے۔ یہاں ایک بہت ہی اہم بات کا جان لینا ضروری ہے کہ خضر کے پاس جو علم تھا وہ اللہ کا محض مخصوص عطیہ تھا جیسا کہ آیت (65) میں اس کی صراحت آگئی ہے، اس لیے بعض گمراہ لوگوں کا یہ کہنا کہ اللہ تعالیٰ انبیا کے علاوہ بعض دوسروں کو علم لدنی دیتا ہے جو ظاہری علم شریعت سے مختلف ہوتا ہے، گمراہ کن رائے ہے اور شریعت سے آزادی حاصل کرنے کا بہانہ ہے، اللہ نے خضر کو بعض غیبی امور کا علم دیا تو قرآن میں اس کی صراحت کردی، اگر کوئی اور شخص خود سے علم لدنی کا دعوی کرے گا تو اس کی بات نہیں مانی جائے گی، اس لیے کہ اس کے پاس خضر کی طرح قرآن سے دلیل موجود نہیں ہے کہ اللہ نے اسے کوئی مخصوص علم لدنی دیا ہے۔ وباللہ التوفیق