كَانَ النَّاسُ أُمَّةً وَاحِدَةً فَبَعَثَ اللَّهُ النَّبِيِّينَ مُبَشِّرِينَ وَمُنذِرِينَ وَأَنزَلَ مَعَهُمُ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ لِيَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ فِيمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ ۚ وَمَا اخْتَلَفَ فِيهِ إِلَّا الَّذِينَ أُوتُوهُ مِن بَعْدِ مَا جَاءَتْهُمُ الْبَيِّنَاتُ بَغْيًا بَيْنَهُمْ ۖ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ بِإِذْنِهِ ۗ وَاللَّهُ يَهْدِي مَن يَشَاءُ إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ
ابتدا میں ایسا تھا کہ لوگ الگ الگ گروہوں میں بٹے ہوئے نہیں تھے۔ ایک ہی قوم و جماعت تھے (پھر ایسا ہوا کہ باہم دگر مختلف ہوگئے اور الگ الگ ٹولیاں بن گئیں) پس اللہ نے (ایک کے بعد ایک) نبیوں کو مبعوث کیا۔ وہ ( ایمان و عمل کی برکتوں کی) بشارت دیتے اور (انکار و بد عملی کے نتائج سے) متنبہ کرتے تھے۔ نیز ان کے ساتھ کتاب الٰہی نازل کی گئی تاکہ جن باتوں میں لوگ اختلاف کرنے لگے تھے ان میں وہ فیصلہ کردینے والی ہو (اور تمام لوگوں کو راہ حق پر متحد کردے) اور یہ جو لوگ باہم دگر مختلف ہوئے تو اس لیے نہیں ہوئے کہ ہدایت سے محروم اور حقیقت سے بے خبر تھے۔ نہیں وحی الٰہی کے واضح احکام ان کے سامنے تھے مگر پھر بھی محض آپس کی ضد اور مخالفت کرنے لگتے تھے۔ بالآخر اللہ نے ایمان لانے والوں کو (دین کی) وہ حقیقت دکھا دی جس میں لوگ مختلف ہوگئے تھے (اور ایک دوسرے کو جھٹلا رہے تھے) اور اللہ جسے چاہتا ہے دین کی سیدھی راہ دکھلا دیتا ہے
301: ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ آدم اور نوح علیہما السلام کے درمیان دس صدیوں کی مدت تھی۔ اس پوری مدت میں لوگ ایک ہی شریعت حقہ پر قائم رہے۔ پھر ان کے درمیان مرور زمانہ کے ساتھ عقائد میں اختلاف واقع ہوگیا (انتہی) تو اللہ تعالیٰ نے ان کو راہ راست پر لانے کے لیے انبیاء کرام کو بھیجا جنہوں نے اللہ کی بندگی کرنے والوں کو دنیا و آخرت کی کامیابی اور جنت کی خوشخبری دی، اور اس کی نافرمانی کرنے والوں کو دنیا و آخرت کی ناکامی، محرومی، ذلت و رسوائی اور جہنم سے ڈرایا، اور ان انبیاء کے ساتھ کتابیں بھیجیں جن میں سچی خبریں اور مبنی بر عدل اوامر تھے، جو اصول و فروع میں اختلاف کرنے والوں کے درمیان قول فیصل کا درجہ رکھتی تھیں۔ یہود و نصاری ٰ نے اللہ کی کتابوں (سب کچھ جاننے کے باوجود)۔ اختلاف کیا، اور اس کا سبب ان کا آپس کا حسد و عناد تھا، لیکن اللہ نے مسلمانوں کو اپنے فضل و کرم سے حق کی طرف ہدایت دی، وہ تمام کتب سماویہ پر ایمان لائے، پھر قرآن پر ایمان لائے اور ان تمام امور میں اعتدال کی راہ اختیار کی جن میں یہود و نصاریٰ نے اختلاف کیا تھا، اور اللہ جسے چاہتا ہے اپنی سیدھی راہ کی طرف ہدایت دیتا ہے۔ مصنف عبدالرزاق میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے، نبی کریم ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے فرمایا کہ ہم مسلمان زمانہ کے اعتبار سے آخر میں آئے ہیں، قیامت کے دن اولین لوگوں میں سے ہوں گے، ہم لوگ سب سے پہلے جنت میں داخل ہوں گے، حالانکہ اہل کتاب کو ہم سے پہلے کتاب ملی ہے اور ہمیں بعد میں کتاب ملی، لیکن اللہ نے ہمیں حق کی طرف اپنے فضل و کرم سے ہدایت دی، لوگوں نے جمعہ کے دن کے بارے میں آپس میں اختلاف کیا، تو اللہ نے ہمیں ہدایت دی اور ہم نے جمعہ کا اختیار کرلیا اور لوگ ہمارے تابع بن گئے، یعنی ہفتہ کا دن یہود نے اختیار کرلیا، اور نصاری نے اتوار کا دن۔