هَلْ يَنظُرُونَ إِلَّا أَن يَأْتِيَهُمُ اللَّهُ فِي ظُلَلٍ مِّنَ الْغَمَامِ وَالْمَلَائِكَةُ وَقُضِيَ الْأَمْرُ ۚ وَإِلَى اللَّهِ تُرْجَعُ الْأُمُورُ
پھر یہ لوگ کس بات کے انتظام میں ہیں؟ کیا اس بات کے منتظر ہیں کہ خدا ان کے سامنے نمودار ہوجائے (اور اس طرح نمودار ہوجائے کہ) بادل اس پر سایہ کیے ہوں اور فرشتے (صف باندھے کھڑے) ہوں اور جو کچھ ہونا ہے ہوچکے؟ (اگر اسی بات کے منتظر ہیں تو یاد رکھیں یہ بات دنیا میں تو ہونے والی نہیں) اور تمام کاموں کا سر رشتہ اللہ ہی کے ہاتھ ہے
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے لیے (آنے) کی صفت استعمال کی ہے، جیسا کہ دوسری آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے استواء، نزول اور مجیئ وغیرہ کی صفات اپنے لیے ثابت کی ہیں، اسی طرح نبی کریم (ﷺ) نے بھی اللہ کے لیے متعدد صفات کو صحیح احادیث میں ثابت کیا ہے۔ ان تمام صفات کے بارے میں سلف صالحین کا منہج رہا ہے کہ ہم بھی انہیں اللہ کے لیے ثابت کرتے ہیں اور ان پر ایمان رکھتے ہیں، اور مخلوق کی صفات کے ساتھ انہیں تشبیہ نہیں دیتے، اور نہ مخلوق کی کسی صفت کے ذریعہ اس کی مثال بیان کرتے ہیں اور نہ ان صفات کی ہم تاویل کرتے ہیں، جیسا کہ باطل فرقوں کا شیوہ رہا ہے، معطلہ، جہمیہ، معتزلہ، اشاعرہ اور اسی قسم کے باطل فرقوں نے اللہ کی صفات کو اسی طرح تسلیم نہیں کیا جس طرح انہیں اللہ نے اپنے لیے ثابت کیا ہے، یا اس کے رسول ﷺنے اس کے لیے ثابت کیا ہے۔ حافظ ابن عبدالبر کہتے ہیں کہ اہل سنت بالاجماع اللہ کی ان تمام صفات کو مانتے ہیں جن کا ذکر قرآن کریم یا سنت میں آیا ہے، ان پر ایمان رکھتے ہیں، اور یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ یہ تمام صفات اللہ کی فی الحقیقت صفات ہیں، مجازاً نہیں، لیکن ہم ان کی کیفیت نہیں جانتے۔ اہل بدعت جہمیہ، معتزلہ اور خوارج وغیرہم ان کا انکار کرتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ ان صفات سے ان کا حقیقی معنی مراد نہیں ہے۔ انتہی