سورة الكهف - آیت 18

وَتَحْسَبُهُمْ أَيْقَاظًا وَهُمْ رُقُودٌ ۚ وَنُقَلِّبُهُمْ ذَاتَ الْيَمِينِ وَذَاتَ الشِّمَالِ ۖ وَكَلْبُهُم بَاسِطٌ ذِرَاعَيْهِ بِالْوَصِيدِ ۚ لَوِ اطَّلَعْتَ عَلَيْهِمْ لَوَلَّيْتَ مِنْهُمْ فِرَارًا وَلَمُلِئْتَ مِنْهُمْ رُعْبًا

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور تم انہیں دیکھو تو خیال کرو یہ جاگ رہے ہیں (یعنی زندہ ہی) حالانکہ وہ سو رہے ہیں (یعنی مردہ ہیں) ہم انہیں داہنے بائیں پلٹتے رہتے ہیں (یعنی ان کی کروٹ بدلتی رہتی ہے) اور ان کا کتا چوکھٹ کی جگہ اپنے دونوں بازو پھیلائے بیٹھا ہے۔ اگر تم انہیں جھانک کر دیکھو تو الٹے پاؤں بھاگ کھڑے ہو۔ تم پر (ان کے منظر سے) دہشت چھا جائے۔

تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ

(11) اس آیت کریمہ میں ان صالحین کی ایک اور عجیب و غریب کیفیت بیان کی گئی ہے کہ اگرچہ اللہ تعالیٰ نے ان پر گہری نیند طاری کردی تھی، لیکن ان کی آنکھیں اس طرح کھلی تھیں کہ ا گر کوئی انہیں دیکھتا تو انہیں بیدار سمجھتا، اور اللہ تعالیٰ کے حکم سے ان کے اجسام دائیں اور بائیں الٹتے پلٹتے رہتے تھے تاکہ زمین انہیں نقصان نہ پہنچائے، اور ان کا کتا غار کے دہانے پر اپنے بازو پھیلائے بیٹھا تھا، ان کے ان تمام احوال و کوائف سے ایک ایسی کیفیت پیدا ہوگئی تھی کہ اگر کوئی قوی آدمی بھی انہیں دیکھتا تو اس پر رعب طاری ہوجاتا اور مارے ڈر کے بھاگ پڑتا۔ حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ اللہ نے ان کی ایسی کیفیت اس لیے بنادی تھی تاکہ کوئی ان کے قریب نہ جائے اور نہ کوئی انہیں چھوئے، یہاں تک کہ اللہ کے علم کے مطابق ان کی نیند کی مدت پوری ہوجائے۔