وَمِنَ النَّاسِ مَن يَشْرِي نَفْسَهُ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ رَءُوفٌ بِالْعِبَادِ
(برخلاف ان کے) کچھ آدمی ایسے بھی ہیں جو (نفس پرستی کی جگہ خدا پرستی کی روح سے معمور ہوتے ہیں اور) اللہ کی خوشنودی کی طلب میں اپنی جانیں تک بیچ دالتے ہیں (یعنی رضائے الٰہی کی راہ میں اپنا سب کچھ قربان کردیتے ہیں) اور (جو کوئی ایسا کرتا ہے تو یاد رکھے) اللہ بھی اپنے بندوں کے لیے سرتاسر شفقت و مہربانی رکھنے والا ہے
297: منافقین کی صفات بیان کرنے کے بعد، مؤمنین صالحین کی صفات حمیدہ بیان کی جا رہی ہیں، تاکہ بندہ مؤمن منافقین کی صفات سے بچے، اور صالحین کی صفات اپنے اندر پیدا کرے۔ ابن عباس (رض) وغیرہ کی روایت ہے کہ یہ آیت حضرت صہیب رومی کے بارے میں نازل ہوئی تھی، جب مکہ سے ہجرت کے وقت کفار قریش نے انہیں گھیر لیا کہ تم اپنا مال لے کر نہیں جاسکتے۔ اگر مال چھوڑ کر جانا چاہو تو جاسکتے ہو۔ چنانچہ انہوں نے اپنی ساری جائیداد اہل مکہ کے حوالے کردی، اور صرف ایمان لے کر مدینہ کے لیے روانہ ہوگئے، ان کے مدینہ پہنچنے سے پہلے یہ آیت نازل ہوچکی تھی، جب رسول اللہ (ﷺ) نے انہیں دیکھا تو کہا ربح صہیب ربح صہیب، مستدرک حاکم، طبقات ابن سعد۔ یہاں بھی وہی بات کہی جائے گی کہ قرآن و سنت سے استفادہ کرتے وقت عموم لفظ کا اعتبار ہوتا ہے، خصوص سبب کا نہیں ،، اس لیے یہ آیت ہر مجاہد فی سبیل اللہ پر منطبق ہوتی ہے، جو اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لیے اپنی جان و مال کی قربانی پیش کردیتا ہے۔