وَاذْكُرُوا اللَّهَ فِي أَيَّامٍ مَّعْدُودَاتٍ ۚ فَمَن تَعَجَّلَ فِي يَوْمَيْنِ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ وَمَن تَأَخَّرَ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ ۚ لِمَنِ اتَّقَىٰ ۗ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ إِلَيْهِ تُحْشَرُونَ
اور (دیکھو) حج کے گنے ہوئے دنوں میں (جو معلوم ہے اور دسویں ذوالحج سے لے کر تیرہویں تک ہیں) اللہ کی یاد میں مشغول رہو۔ پھر جو کوئی (واپسی میں) جلدی کرے اور دو ہی دن میں روانہ ہوجائے تو اس میں کوئی گناہ کی بات نہیں اور جو کوئی تاخیر کرے تو وہ تاخیر بھی کرسکتا ہے۔ لیکن یہ (جلدی اور تاخیر کی رخصت) اسی کے لیے ہے جس میں تقوی ہو (کیونکہ تمام اعمال سے اصل مقصود تقویٰ ہے۔ اگر ایک شخص کے ارادے اور عمل میں تقوی نہیں تو اس کا کوئی عمل بھی صحیح نہیں ہوسکتا) پس ہر حال میں اللہ سے ڈرتے رہو اور یہ بات نہ بھولوں کہ تم سب کو (ایک دن مرنا اور پھر) اس کے حضور جمع ہونا ہے
292: مراد ایام تشریق ہے۔ ابن عباس (رض) سے یہی منقول ہے۔ امام مسلم کی روایت ہے۔ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا ہے کہ ایام تشریق کھانے پینے اور ذکرِ الٰہی کے ایام ہیں۔ بخاری کی روایت ہے کہ ابن عمر (رض) منی میں ہر وقت اور ہر حال میں تکبیر کہتے رہتے تھے۔ رمی جمار کے وقت تکبیر کہنا اسی میں شامل ہے۔ 293: اگر حاجی گیارہ اور بارہ کی کنکریاں مار کر منیٰ سے رخصت ہوجائے تو کوئی حرج نہیں، اور اگر تیرہ کی کنکریاں بھی مارے تو بھی کوئی حرج نہیں، سنت یہی ہے کہ تیرہ کی کنکریاں بھی ماری جائیں۔ حجۃ الوداع میں رسول اللہ (ﷺ) منیٰ سے تیرہ کی کنکریاں مار کر رخصت ہوئے تھے۔ حضرت ابن عباس (رض) کہتے ہیں (ایام معدودات) سے مراد ایام تشریق ہے، اور وہ چار دن ہیں، قربانی کا دن اور اس کے بعد تین دن، ابن عمر، ابن زبیر، ابو موسی، مجادہ، سعید بن جبیر اور قتادہ وغیرہم کا یہی قول ہے، اور آیت سے بھی اسی قول کی تائید ہوتی ہے، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جو کوئی دو دن کے بعد منیٰ چھوڑ دے گا تو کوئی حرج نہیں اور جو کوئی تیسرے دن بھی کنکری مارے گا تو کوئی حرج نہیں اس طرح قربانی کے دن کے بعد ایام تشریق کے تین دن ہوئے۔