سورة البقرة - آیت 13

وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ آمِنُوا كَمَا آمَنَ النَّاسُ قَالُوا أَنُؤْمِنُ كَمَا آمَنَ السُّفَهَاءُ ۗ أَلَا إِنَّهُمْ هُمُ السُّفَهَاءُ وَلَٰكِن لَّا يَعْلَمُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور جب ان لوگوں سے کہا جاتا ہے کہ ایمان کی راہ اختیا کرو جس طرح اور لوگوں نے اختیار کی ہے تو کہتے ہیں کیا ہم بھی اسی طرح ایمان لے آئیں جس طرح (یہ) بے وقوف آدمی ایمان لے آئے ہیں (یعنی جس طرح ان لوگوں نے بے سروسامنی و مظلومی کی حالت میں دعوت حق کا ساتھ دیا اسی طرح ہم بھی بے وقوف بن کر ساتھ دے دیں؟) یاد رکھو فی الحقیقت یہی لوگ بے وقوف ہیں اگرچہ (جہہل وغرور کی سرشاری میں اپنی حالت کا) شعور نہیں رکھتے

تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ

26۔ نہی عن المنکر یعنی فساد فی الارض سے روکنے کے بعد، اللہ تعالیٰ نے منافقین کے ساتھ امر بالمعروف کا اسلوب اختیار کیا، تاکہ خیر خواہی اور ارشاد و رہنمائی کی ذمہ داری پوری طرح ادا ہوجائے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان سے کہا کہ تم لوگ اپنے ایمان میں وہ خلوص پیدا کرو جو صحابہ کرام کے ایمان میں ہے۔ الناس سے مراد رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے زمانہ کے مؤمنین صادقین ہیں۔ کیونکہ انسانوں کی بہترین صفات اور اعلیٰ اخلاق ان میں پائے جانے کی وجہ سے حقیقت میں وہی لوگ (آدمی) تھے۔ 27۔ رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) جب انہیں ایمان خالص کی دعوت دیتے، تو وہ لوگ اپنی نجی مجلسوں میں کہتے کہ، کیا ہم ان بے وقوفوں کی طرح ایمان لے آئیں؟ صحابہ کرام کو سفیہ اور بے وقوف سمجھتے کہ رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) پر ایمان لے آئے، اپنا گھر بار چھوڑا اور کافروں سے دشمنی مول لی۔ حالانکہ ان کے نزدیک عقل کا تقاضا اس کے برعکس تھا، اس لیے صحابہ کرام کو کم عقلی اور بے وقوفی کی طرف منسوب کیا، اور اپنے آپ کو دنیا والوں کے سامنے اربابِ عقل و خرد باور کرایا۔ وہ لوگ صحابہ کرام کو اس لیے سفیہ کہتے تھے کہ اس زمانے میں اکثر مسلمان غریب و فقیر، اور منافقین اصحابِ ریاست و ثروت تھے۔ اس لیے یہ لوگ صحابہ کو بطور تحقیر سفیہ کہتے۔