وَإِذَا قَرَأْتَ الْقُرْآنَ جَعَلْنَا بَيْنَكَ وَبَيْنَ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ حِجَابًا مَّسْتُورًا
(اے پیغمبر) جب تو قرآن پڑھتا ہے تو ہم تجھ میں اور ان لوگوں میں جو آخرت پر یقین نہیں رکھتے ایک پوشیدہ پردہ حائل کردیتے ہیں (یعنی ہمارا ٹھہرایا ہوا قانون یہ ہے کہ ایسے لوگوں میں اور صدائے حق میں ایک پردہ سا حائل ہوجاتا ہے)
(30) اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ نبی کریم (ﷺ) جب قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہیں تو جو مشرکین روز قیامت پر ایمان نہیں رکھتے ہیں اس سے کچھ بھی فائدہ حاصل نہیں کرتے ہیں، ان کے کفر و تمرد اور قرآن سے تغافل کی وجہ سے اللہ تعالیٰ رسول اللہ (ﷺ) اور ان کے درمیان ایک پردہ حائل کردیتا ہے، جس کی وجہ سے وہ رسول اللہ (ﷺ) کو نہیں دیکھ پاتے ہیں۔ حافظ سیوطی نے لکھا ہے کہ یہ آیت ان مشرکین کے بارے میں نازل ہوئی تھی، جو رسول اللہ (ﷺ) کو قتل کرنا چاہتے تھے، جیسے ابوجہل اور بو لہب کی بیوی ام جمیل وغیرہ اور یہاں قرآن سے مراد یا تو مطلق قرآن ہے، یا سورۃ النحل، الکہف اور الجاثیہ کی مشہور تین آیتیں۔ النحل : 108، الکہف : 57۔ ۔ الجاثیہ : 23۔ خطیب نے لکھا ہے کہ ان آیتوں کی برکت سے اللہ تعالیٰ نبی کریم (ﷺ) کو مشرکین کی نگاہوں سے اوجھل کردیتا تھا، قرطبی نے ان آیتوں کے ساتھ سورۃ یسین کی ابتدائی آیتوں کا تک اضافہ کیا ہے، اس لیے کہ روایات سے ثابت ہے کہ ہجرت کی رات اپنے گھر سے نکلتے وقت آپ انہی آیتوں کی تلاوت کرتے رہے اور دشمنوں کے سروں پر مٹی ڈالتے ہوئے نکل گئے اور کسی نے آپ کو نہیں دیکھا۔