وَلَا تَقْرَبُوا مَالَ الْيَتِيمِ إِلَّا بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ حَتَّىٰ يَبْلُغَ أَشُدَّهُ ۚ وَأَوْفُوا بِالْعَهْدِ ۖ إِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْئُولًا
اور یتیموں کے مال کے قریب بھی نہ جاؤ (یعنی اسے خرچ کرنے کا ارادہ بھی نہ کرنا) مگر ہاں ایسے طریقہ پر جو بہتر ہو۔ یہاں تک کہ یتیم جوان ہوجائیں (اور تم ان کی امانت ان کے حوالہ کردو) اور (دیکھو) اپنا عہد پورا کیا کرو، عہد کے بارے میں تم سے باز پرس کی جائے گی۔
(23) جان کی حفاظت کا حکم دینے کے بعد اب مال کی حفاظت کا حکم دیا جارہا ہے، اور چونکہ یتیم کا اللہ کے علاوہ کوئی مضبوط سہارا نہیں ہوتا، اس لیے اس کے مال پر بد نیت لوگوں کی نگاہ لگی رہتی ہے، اسی لیے سب سے پہلے اس کے مال کی حفاظت کا حکم دیا گیا اور اس بارے میں انتہائی احتیاط کی تعلیم دینے کے لیے اللہ تعالیٰ نے کہا کہ یتیم کے مال کے قریب بھی نہ جاؤ، ہاں اگر نیت یہ ہو کہ اس کی دیکھ بھال کی جائے، تجارت کر کے اسے ترقی دی جائے تو پھر اس میں تصرف کرنا جائز ہے، یہاں تک کہ یتیم بالغ ہوجائے اور عقلی طور پر اپنے مال میں صحیح تصرف کرنے کے قابل بن جائے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ لوگوں کے ساتھ تمہارے جو عقود اور معاہدے ہوں ان کی پابندی کرو اور دھوکہ نہ دو، اس لیے کہ قیامت کے دن بندوں سے عہود و مواثیق کے بارے میں بھی پوچھا جائے گا اور اگر کسی نے بے سبب نقض عہد کیا ہوگا تو اس دن اس کی سزا اسے بھگتنی ہوگی۔