وَآتِ ذَا الْقُرْبَىٰ حَقَّهُ وَالْمِسْكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَلَا تُبَذِّرْ تَبْذِيرًا
اور (دیکھو) جو لوگ تمہارے قرابت دار ہیں، جو مسکین ہیں، جو (بے یارومددگار) مسافر ہیں، ان سب کا تم پر حق ہے ان کا حق ادا کرتے رہو اور مال و دولت کو بے محل خرچ نہ کرو جیسا کہ بے محل خرچ کرنا ہوتا ہے۔
(16) والدین کے بعد دیگر رشتہ داروں، فقیروں اور مسافروں کا خیال کرنے کی نصیحت کی گئی ہے۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ آیت میں قریب کے بجائے ذو القربی سے اس طرف اشارہ مقصود ہے کہ اگر کسی کے ساتھ ادنی سی بھی قرابت ہے تو اس کا خیال رکھا جانا چاہیے، اور صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ اقارب کو صدقہ دینے میں صلہ رحمی کا بھی اجر ملتا ہے۔ آخر میں فضول خرچی سے منع کیا گیا ہے جیسے کوئی آدمی اپنا مال ناجائز کاموں میں خرچ کرے، یا ان لوگوں پر خرچ کرے جو شرعی اصولوں کے مطابق مستحق نہ ہوں، زمخشری نے کشاف میں لکھا ہے کہ دور جاہلیت میں لوگ اونٹ ذبح کر کے اپنی مالداری کا اظہار کرتے، اور فخرو ریاکاری کے دوسرے کاموں میں اپنا مال خرچ کرتے اور اپنے اشعار میں اس کا ذکر کرتے تھے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے انہیں حکم دیا کہ وہ اپنا مال ایسے کاموں پر خرچ کریں جو انہیں اللہ سے قریب کرے۔