وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُل رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا
ان کے آگے محبت اور مہربانی کے ساتھ عاجزی کا سر جھکائے رکھو۔ ان کے حق میں (ہمیشہ) دعا کرو کہ پروردگار ! جس طرح انہوں نے مجھے صغر سنی میں پالا پوسا اور بڑا کیا تو اسی طرح تو ببھی ان پر رحم کیجیو۔
قفال نے کے تحت لکھتا ہے کہ جس طرح چڑیا غایت حفاظت کے پیش نظر اپنے چوزوں کو اپنے پر سے ڈھانک لیتی ہے اور جب پرواز سے فارغ ہو کر زمین پر اترنا چاہتی ہے تو اپنے پر سمیٹ لیتی ہے اسی طرح لڑکا جب جوان ہوجائے اور والدین بوڑھے ہوجائیں تو ہر دم ان کی حفاظت کرتا رہے اور ان کے سامنے نہایت عاجزی اور انکساری کے ساتھ رہے۔ آیت کے اس حصہ میں تواضع اور انکساری کی طرف ایک بلیغ اشارہ ہے۔ سعید بن جبیر نے اس کی تفسیر یہ بیان کی ہے کہ اے انسان ! تو اپنے والدین کے لیے اس طرح تواضع اور انکساری کا اظہار کر جس طرح غلام اپنے سخت مزاج اور سخت گیر آقا کے سامنے کرتا ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے گویا یہ کہنا چاہا ہے کہ والدین کے لیے اپنی عارضی شفقت و محبت پر اکتفا نہ کرو، بلکہ جب تک زندہ رہو روزانہ کم از کم پانچوں نمازوں میں ان کے حق میں دعا کرو کہ اللہ ان پر دائمی رحمت کرے، ان کی مغفرت فرما وے اور انہیں جنت الفردوس میں جگہ دے جس طرح انہوں نے غایت شفقت و محبت کے ساتھ تمہاری پرورش کی تھی جب تم چھوٹے تھے اور حرکت نہیں کرسکتے تھے۔