سورة البقرة - آیت 198

لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَن تَبْتَغُوا فَضْلًا مِّن رَّبِّكُمْ ۚ فَإِذَا أَفَضْتُم مِّنْ عَرَفَاتٍ فَاذْكُرُوا اللَّهَ عِندَ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ ۖ وَاذْكُرُوهُ كَمَا هَدَاكُمْ وَإِن كُنتُم مِّن قَبْلِهِ لَمِنَ الضَّالِّينَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

(اور دیکھو) اس میں تمہارے لیے کوئی گناہ کی بات نہیں اگر (اعمال حج کے ساتھ) تم اپنے پروردگار کے فض (رح) کی بھی تلاش میں رہو (یعنی کاروبار تجارت کا بھی مشغلہ رکھو) پس جب عرفات (نامی مقام) سے انبوہ در انبوہ لوٹو تو مشعر الحرام (یعنی مزدلفہ میں (ٹھہر کر) اللہ کا ذکر کرو۔ اور اسی طرح ذکر کرو جس طرح ذکر کرنے کا طریقہ تمہیں بتلا دیا گیا ہے۔ اگرچہ اس سے پہلے تم بھی انہی لوگوں میں سے تھے جو راہ حق سے بھٹک گئے ہیں

تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ

284: اللہ تعالیٰ نے حج کے لیے جب زاد راہ لے کر چلنے کی نصیحت کی، اور اس کے بعد تقویٰ کا حکم دیا، تو اس بات کی بھی خبر دی کہ موسم حج میں تجارت کرنے میں کوئی حرج نہیں اور ایسا کرنا تقوی کے خلاف نہیں، جیسا کہ زمانہ جاہلیت میں لوگ سمجھتے تھے کہ حج کے ساتھ تجارت کرنا اچھی بات نہیں۔ امام بخاری (رح) نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ عکاظ، مجنہ اور ذو المجاز دور جاہلیت کے بازار تھے، حج کے زمانے میں لوگ ان بازاروں میں تجارت بھی کرتے تھے، اسلام آنے کے بعد مسلمانوں نے موسم حج میں ان بازاروں میں تجارت کرنا مکروہ سمجھا تو یہ آیت نازل ہوئی۔ 285: یہ آیت مندرجہ ذیل امور پر دلالت کرتی ہے۔ وقوف عرفہ حج کا رکن ہے، اور یہ بات دور جاہلیت سے معلوم ہے، مزدلفہ میں دسویں تاریخ کی رات میں اور فجر کے نماز کے بعد مشعر حرام کے پاس اللہ کو خوب یاد کرنا چاہئے، بعض لوگوں نے اسے واجب بتایا ہے۔