سورة النحل - آیت 126

وَإِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوا بِمِثْلِ مَا عُوقِبْتُم بِهِ ۖ وَلَئِن صَبَرْتُمْ لَهُوَ خَيْرٌ لِّلصَّابِرِينَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور مخالفوں کی سختی کے جواب میں سختی کرو تو چاہیے کہ ویسی ہی اور اتنی ہی کرو جیسی تمہارے ساتھ کی گئی ہے، اور اگر تم نے صبر کیا (یعنی جھیل گئے اور سختی کا جواب سختی سے نہیں دیا) تو بلاشبہ صبر کرنے والوں کے لیے صبر ہی بہتر ہے۔

تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ

(78) داعیان اسلام کو حکم دیا گیا ہے کہ اگر ان کا واسطہ غیر مسلموں سے پڑے تو پہلے انہیں حق قبول کرنے کی دعوت دیں اور اگر انکار کریں اور جزیہ بھی نہ دیں تو ان سے قتال کریں، اگر دشمنوں سے بدلہ لینے کی نوبت آئے تو زیادتی نہ کریں، ابن جریر کہتے ہیں کہ یہ آیت اس بارے میں نازل ہوئی ہے کہ اگر کوئی مظلوم ظالم کو پالے اور اس سے بدلہ لینے پر قادر ہوجائے تو بدلہ لینے میں زیادتی نہ کرے۔ اور بہرحال بہتر یہی ہے کہ جس پر زیادتی ہوتی ہے وہ صبر کرے اور عفو درگزر سے کام لے۔ جمہور کی رائے ہے کہ یہ آیت محکم ہے اس لیے کہ اس میں انتقام نہ لینے کی نصیحت کی گئی ہے اور صبر کرنے والوں کی تعریف کی گئی ہے۔ اور بعض لوگوں کی رائے ہے کہ یہ آیت ان آیات کے ذریعہ منسوخ ہوگئی ہے جن میں کافروں سے قتال کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ شوکانی کہتے ہیں اس قول کی کوئی دلیل نہیں ہے، اس آیت کے شان نزول میں محدثین نے ابی بن کعب سے روایت کی ہے کہ جنگ احد میں چونسٹھ انصاری اور چھ مہاجرین کام آگئے، ان میں حمز ہ رضی اللہ عنہ بھی تھے کافروں نے ان مقتول صحابہ کا مثلہ کیا، یعنی ان کی شکل و صورت بگاڑ دی تھی، انصار نے کہا کہ جس دن ہمیں موقع ملے گا، ان کے ساتھ ایسا ہی کریں گے۔ جب مکہ فتح ہوا تو یہ آیت نازل ہوئی۔ چنانچہ آپ نے کہا کہ ہم صبر کریں گے اور انتقام نہیں لیں گے۔ صحابہ سے کہا کہ تم لوگ سوائے چار آدمی کے کسی اور سے تعرض نہ کرو۔ (ترمذی، زوائد مسند احمد اور حاکم، محدث البانی نے اس کی تصحیح کی ہے)